اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پرٹرائل چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بغاوت پر سویلین کا خصوصی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے7 رکنی لارجر بینچ نے عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
’آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقیں غیر قانونی اور بدنیتی پرمبنی ہیں‘
آج سماعت کے آغاز پرسول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے تحریری دلائل جمع کرائے۔ انہوں نے کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا، میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہوسکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں، میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرادی ہیں
فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقیں غیر قانونی اور بدنیتی پرمبنی ہیں، میرا مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998 میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیربحث نہیں لایا گیا، سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں ہیں، میں نے کسی ملزم کی بریت کوچیلنج نہیں کیا، ملزمان کو فوج کے حوالے کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کوچنا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جا کرکہا گیا مجھ میں لوگ 15 لوگوں کوحوالے کردیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہوگا ان کواپیل کا حق ملے گا اورجن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔
قومی سلامتی کے معاملے پر خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے، جسٹس منصور
جسٹس منصورنے جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟ قومی سلامتی کے معاملے پر خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے، آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کےتحت تو ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، سویلینز نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟ جب آپ یہ ایکٹ چیلنج نہیں کر رہے تو قانون کی بات کریں۔
جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگتا ہے؟ آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے یہ بتا دیں، قانوناً اگر فوج سویلین کی حوالگی کا کہتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، فوج چارج کرسکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، بتائیں کمانڈنگ افسرانتظامی جج سے کس بنیاد پرسویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟ کوئی دستاویز تو دکھا دیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کرائم رپورٹ میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں، 9 مئی مقدمات میں ان ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا خصوصی عدالت میں ٹرائل کرے؟۔
جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ آپ یہ نہیں بتا سکے کہ کن درج مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں، یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کیسے فوج کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا کہ ان افراد نے جرم کیا ہے؟ سول ٹرائل چل رہا ہے تو فوج کیسے فیصلہ کرلیتی ہے کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کردو؟ فوج کا اندرونی طریقہ کار کیا ہے جس میں طے ہوتا ہو کہ سویلین کو ہمارے حوالے کردو؟ کیا آرمی اتھارٹیز یہ فیصلہ بھی کرسکتی ہیں کہ سویلین کو ہمارے حوالے کردو؟ اگر کسی کا سول کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے تو کیا فوج اس کی حوالگی کا کہہ سکتی ہے؟ آپ کےمطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ والاجرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہواہو، کسی کی گرفتاری کیلئے آنے سے پہلے فوج اپنے گھر پر کیا تیاری کرتی ہے یہ بتادیں، بار بار آپ سے سوال کر رہے ہیں اورآپ جواب نہیں دے رہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔
دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو بتانے دیں کہ اصل صورتحال کیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام وکلاء دلائل مکمل کرلیں پھر اٹارنی جنرل کو سن لیں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ ضابطہ فوجداری میں دفعات آرمی ایکٹ میں کہاں ہیں؟۔ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مسئلہ فورم طے کرنے کا ہے کہ کہاں ٹرائل ہوگا۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 13 نہ پڑھائیں ؟ آپ نے کہا آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کو دیکھنا پڑے گا۔
دلائل کے دوران پنجاب حکومت کی جانب سے 9 مئی کے واقعات میں گرفتار افراد کے ڈیٹا سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی۔ سپریم کورٹ نے کل کی سماعت میںتمام افراد گرفتار کا ڈیٹا طلب کیا تھا۔
پنجاب حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد بعد سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نے پوچھا یہ درخواستیں پہلے ہائی کورٹ میں نہیں جانی چاہئے، بلکہ یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابل سماعت ہیں۔
عدالت نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ کیا درخواستیں قابل سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں۔
جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟، ٹرائل کا فورم کیسے طے ہوتا ہے یہی سوال ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگتا ہے؟ اس کے جواب میں وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ملزمان کی حوالگی کی درخواست نہیں دی جا سکتی۔
افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے، جسٹس مظاہر علی نقوی
جسٹس مظاہرعلی نقوی نے سوال کیا کہ کب مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات شامل کیں؟ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیسے ادارے نے الزام لگایا کہ ان افراد نے جرم کیا ہے؟ کیسے طے ہوتا ہے کسی کے خلاف اس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہو سکتا ہے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ سول ٹرائل چل رہا ہے تو ادارہ کیسے فیصلہ کرلیتا ہے؟ کیسے کہا جا سکتا ہے اس شخص کو حوالے کرو؟ ضابطہ فوجداری کی دفعات اس ایکٹ میں کہاں ہیں؟ کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے تو کیا ادارہ حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہی تو میری دلیل ہے ادارہ سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ سویلین کی حوالگی کے لئے ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ادارہ اے ٹی سی میں حوالگی کی درخواست دائر کر سکتا ہے، چیف جسٹس
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین ادارے نے ہی کرنا ہے، ادارہ اے ٹی سی میں حوالگی کی درخواست دائر کرسکتا ہے، البتہ حوالگی کی درخواست کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کردائر نہیں کی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست کیوں نہیں دی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے وکیل فیصل صدیقی کو سماعت سے بریک لے کر چائے یا کافی پینے کا مشورہ دے دیا۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ سوالات کے جواب نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا، ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں کہ حوالگی کیسے اور کن شوائد پر ہوئی۔
15 منٹ کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگرکوئی سویلین کسی فوجی کو بغاوت پر اکساتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے، یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے، سیکریٹ ایکٹ لگانے کے لیے کوئی انکوائری تو ضرور ہونی چاہیے، خصوصی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں کہ حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سویلینز کے ٹرائل کے لیے فوجی عدالت غیر معمولی حالات میں ہی فعال ہوسکتی ہے، سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ سویلینز کا خصوصی ٹرائل کم ہوتا ہے، سویلین خصوصی کورٹ نہیں جا سکتا، لہٰذا ان کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوتا ہے، 9 مئی کو واقعات ہوئے، 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں، ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے، البتہ کیاآپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کوئی جرم ہوا ہی نہیں؟۔
سول سوسائٹی کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ چارج کرنے سے پہلےسخت انکوائری ہونی چاہیے، پہلے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری ہونی چاہیے، 1998 کے علاوہ کبھی سویلین حکومت میں خصوصی ٹرائل نہیں ہوا، ملزمان کا دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے۔
دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ نے شروع میں کہا ایکٹ کی مخالفت نہیں کر رہے، صرف غیر معمولی حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے، یہ بتادیں کون سے غیر معمولی حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ سویلینز کا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہے یا نہیں؟
عدالت کہہ سکتی ہے ملزمان کو حوالے نہیں کر رہے، جسٹس منیب اختر
وکیل فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ انسداد دہشت گردی قانون میں جرائم اس ایکٹ سے بالکل مختلف ہیں۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت کہہ سکتی ہے ملزمان کو حوالے نہیں کر رہے۔
مجسٹریٹ کسی کے مطالبے پر سویلین کی حوالگی نہیں دے سکتا، عدالت
نماز جمعہ وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مجسٹریٹ کسی کے مطالبے پر سویلین کی حوالگی نہیں دے سکتا، یہ تنازع وفاقی حکومت حل کر سکتی ہے۔
سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کا اپنے دلائل کے اختتام پر کہنا تھا کہ نہیں سمجھ آتا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیسے لگا دیا گیا، تنصیبات پر حملہ کرنے پر اے ٹی اے لاگو ہوتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ21 ویں آئینی ترمیم کےکیس میں عدالت نے قرار دیا کہ فوجی عدالتیں مخصوص حالات کے لیے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔
جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ حکومت کا مؤقف یہ ہو کہ آج کل جنگی حالات ہیں، اگر عدالت سمجھتی ہے کہ اکیسویں ترمیم کے فیصلے کی وجہ سے ہاتھ بندھے ہیں تو لارجر بینچ ہی بنا لیں خصوصی عدالتوں میں ٹراٸل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، سویلین کے حقوق سلب نہیں کٸے جا سکتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ وہ لارجر بینچ بننے پر بہت کمفرٹیبل ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کی بات سننا چاہتے ہیں مگر اس بات میں وزن بھی ہو، آپ شاہد سمجھ رہے ہیں کہ ہم آپ کی بات نہیں سن رہے۔
وکیل احمد حسین نے کہا کہ کورٹ مارشل سے بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں، آرٹیکل 10 کے مطابق شفاف ٹرائل کا حق ہر شخص کے پاس ہے، آرٹیکل 25 ہر شہری کی عزت نفس کی ضمانت دیتا ہے جب کہ کورٹ مارشل سے عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کوئی ٹیم کرتی ہے، کیا کسی اور ملک میں بھی خصوصی عدالتیں ہیں؟ کسی ملک میں سویلینز کا خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟۔
اس پر وکیل احمد احسن نے کہا کہ امریکا، برطانیہ میں بہت کم سویلین کے خصوصی ٹرائل ہوتے ہیں، ہر شخص کو فئیر ٹرائل اور انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے، کوئی بھی اپنے ہی معاملات کے لئے خود جج نہیں بن سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، کلبھوشن کے لئے اپیل کے حق کا نیا قانون بھی بنایا گیا تھا، 21ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم عدالتوں کا دورانیہ مختصر تھا۔
عدالت نے کہا کہ موجودہ کیس کو21 ویں ترمیم سے الگ قرار دے رہے ہیں، ہم کسی قانون کو چھیڑے بغیر اس کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں کون سے سویلینز کی بات ہو رہی ہے؟ سویلینز تو ریٹائرڈ افسران بھی ہیں، لہٰذا قانون میں یہ کیوں درج ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے؟، کوشش ہوگی کہ نتیجہ منگل تک نکل آئے۔
مخصوص حالات میں اس ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے، جسٹس منیب اختر
وکیل احمد حسین کا اپنا دلائل میں کہنا تھا کہ سینئر افسر نے پریس ریلیز میں دو نتائج اخذ کیے، پریس ریلیز میں کہا 9 مئی کو عسکری تنصیبات پر حملہ کیا گیا، پریس ریلیز میں کہا گیا حملے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کی استدعا منظور کرلی جائے تو یہ ایکٹ ختم ہو جائے گا، البتہ مخصوص حالات میں اس ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے، ایمرجنسی میں تو لوگوں کی نقل وحرکت بھی روک دی جاتی ہے، آئین تو نقل و حرکت اور آزادی کا حق دیتا ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے۔
وکیل احمد اویس نے کہا کہ یہ ایکٹ فئیر ٹرائل یا سویلینز کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔ اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کن سویلینز کا ٹرائل اس ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے؟ سویلینز کی تعریف کیا ہوگی، ریٹائرڈ افسران سویلینز میں آئیں گے؟
آئین اجازت ہی نہیں دیتا کہ آرمی ایکٹ کا جائزہ لے سکیں، جسٹس منصور
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق چلنے کا قائل ہوں، راستے تلاش نہیں کرتا، آئین اجازت ہی نہیں دیتا کہ اس ایکٹ کا جائزہ لے سکیں توکیسے فیصلہ کریں کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط؟ اس ایکٹ میں جو کچھ بھی ہے ہمیں جائزہ لینے کی اجازت نہیں۔
پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے، جسٹس منصور نے کہا قومی سلامتی پر فوج براہ راست متاثر ہوتی ہے، کسی افسرکوقومی سلامتی کےخلاف سازش پر اکسانا سنگین جرم ہے، اس ایکٹ کی شقوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جواد ایس خواجہ کے وکیل نے اپنے دلائل کے اختتام پر کہا کہ بیرونی سازش پر سویلین کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، وقت آچکا ہےکہ کھل کر حقوق کے لئے آواز بلند کی جائے۔
اس پر جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بغاوت پرسویلین کا خصوصی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے، خصوصی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا، دیکھنا ہوگا اے ٹی سی نے کس بنیاد پر کیسز منتقل کیئے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے ملک کر ریاست کے خلاف کچھ کرے تو سنجیدہ معاملہ ہے، ایسی صورت حال میں دونوں میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل عثمان اعوان کو روسٹرم پر بلایا، اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ گزشتہ روز تین سوالات مجھ سے پوچھے گئے تھے، اسلام آباد میں کوئی شخص پولیس کی تحویل میں نہیں، البتہ 4 افراد خیبرپختونخوا میں زیر حراست ہیں۔
فاضل جج نے استفسار کیا کہ یہ آپ سویلین کسٹڈی کی بات کر رہے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی یہ سول کسٹڈی کا ڈیٹا ہے، ان کی کسٹڈی میں 102 افراد ہیں، کوئی بھی خاتون، صحافی یا وکیل ان کی کسٹڈی میں نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں، پنجاب میں 39 خواتین جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں، پالیسی ہے کہ بچے اور خواتین آرمی کی حراست میں نہیں ہوں گے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ صحافیوں سے متعلق کیا پالیسی ہے، اس پر منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ نو مئی کے واقعات پر کسی صحافی کو حراست میں نہیں رکھا گیا، وفاقی حکومت کی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی کوئی پالیسی نہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت دو صوبوں میں نگران حکومت ہے، مہربانی کر کے صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں اور ان سے صحافیوں اور وکلاء سے متعلق پالیسی کا پوچھیں، بینچ کے کچھ ممبران کو صحافیوں اور وکلاء سے متعلق تعفظات ہیں۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر ٹرائل چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت پیر 26 جون کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔
پنجاب حکومت نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق ڈیٹا سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔
رپورٹ کے مطابق 9 مئی کےواقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا جب کہ 39 خواتین جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں قید ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایم پی اوکے تحت 3 ہزار 258 افراد کی گرفتاری کے آرڈر جاری کیے گئے، اس کے تحت 21 افراد جیلوں میں قید ہیں، توڑ پھوڑ کے واقعات میں 3 ہزار50 افراد ملوث پائے گئے جن کیخلاف 51 مقدمات درج ہیں۔
عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں مزید بتایا گیاہے کہ انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 1888 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 108 ملزمان جسمانی ریمانڈ اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، اس قانون کے تحت 33 افراد کی شناخت پریڈ بھی کی گئی۔ 500 افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کیا گیا، انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت 232 افراد ضمانت پر رہا ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق دیگر قوانین کے تحت 247 مقدمات درج کئے گئے جن 4119 افراد کو گرفتار کیا گیا، 86 ملزمان جسمانی ریمانڈ، 2464 کو جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، دیگر مقدمات میں 368 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی جب کہ اب تک 1201 افراد کو بری اور 3012افرادکومختلف مقدمات میں ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود رپورٹ میں اداروں کی حراست میں موجود بچوں، صحافیوں اور وکلاء کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔
گزشتہ روز جمعرات 22 جون کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے حکام سے نو مئی کے واقعے پر زیر حراست افراد کی تفصیلات فراہم طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کتنے وکلاء اور صحافی سول اور ملٹری حراست میں ہے تفصیلات دی جائیں عدالت نے خواتین اور بچوں سے متعلق تفصیلات بھی طلب کی تھں۔
عدالت نے فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمے چلانے کے خلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی تھی۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔ تاہم کل کی سماعت کے آغاز پر ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے 7 رکنی نیا بینچ رشکیل دیا تھا۔
فوجی عدالتوں میں سویلین مقدمات کیخلاف درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دائر کر رکھی ہیں۔
درخواست گزاروں نے سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے 9 مئی کے واقعات کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کا فیصلہ کیا تھا اور متعدد افراد کے مقدمات فوجی عدالت میں بھجوائے جا چکے ہیں۔
اس سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے دوران اس عزم کا اظہارکیا گیا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اوران کے سہولت کاروں اورماسٹرمائنڈز کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔