صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی قبل از وقت منظوری نے بہت سے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
صدر مملکت نے چیف جسٹس کی تعیناتی کی منظوری آئین کے آرٹیکل 175 اے تین کے تحت دی جس کا نوٹیفکیشن وزارت قانون وانصاف کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیا گیا تھا۔
پاکستان کے 28 ویں چیف جسٹس عمر عطا بندیال رواں برس 17 ستمبر کو ریٹائر ہوں گے جس کے بعد اپنے بعض فیصلوں کے باعث شہرت رکھنے والے ْقاضی فائز عیسیٰ یہ عہدہ سنبھالیں گے، تاہم وہ مختصرمدت کے بعد 25 اکتوبر 2024 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
عموماً نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کی منظوری سے متعلق نوٹیفکیشن قریباً دو ہفتے قبل جاری کیا جاتا ہے اس لیے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیلئے قریب قریب 3 ماہ قبل ہی اس کے اجراء نے تجسس بیدار کیا کہ آخر صدر مملکت کو اس منظوری کی اتنی جلدی کیا تھی۔قسیاسی تجزیہ کار اس کا سرا وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف کیوریٹیو ریویو ریفرنس واپس لینےکے فیصلے سے جوڑتے ہیں۔ اس حوالے سے 3 ماہ قبل عمران خان کی حکومت میں دائر Curative review واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس درخواست پر اِن چیمبر سماعت کی تھی تاہم 3 ماہ گزر جانے کے باوجود تاحال اس سماعت کا فیصلہ جاری نہیں کیاگیا۔
مدعی کی جانب سے کیس واپس لینے کے باوجود چیف جسٹس کی جانب سے تاخیرحکومت کے تحفظات کو ظاہرکرتی ہے۔ ممکنہ طور پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال اس کیس کو ڈسپوز آف کرسکتے تھے لیکن انہوں نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں جس کے جواب میں حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکشن جاری کروادیا گیا
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے ایکسپریس نیوز پر جاوید چوہدری کے پروگرام ’کل تک‘ میں شریک قانونی ماہر بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ کیوریٹو ریویو کی بات سنجیدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ، ’لاہور میں کچھ سینیئرججز جن میں شاید کوئی چیف جسٹس بھی ہوں وہ اس پوری کوشش میں تھے کہ کییوریٹو ریویو لگے اورقاضی صاحب کو فائر کیا جائے، غالباً یہ نوٹیفکیشن اس لیے بھی ہے اوع حکومت نے اسی وجہ سے قاضی فائز عیسیٰ کی بطور آئندہ چیف جسٹس تعیناتی کی منظوری دی ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے کا آغاز مئی 2019 میں ہوا، جون 2020 تک سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں۔سپریم جوڈیشل کونسل میں صدرمملکت عارف علوی کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ فائز عیسیٰ نے برطانیہ میں مبینہ طور پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام موجود جائیدادوں کو ظاہرنہیں کیا۔
صدارتی ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ جواب میں 7 اگست 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ ریفرنس 7 اگست 2019 کو ذاتی حیثیت میں سُپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 19 جون 2020 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے انکی درخواست منظورکرتے ہوئے اہلیہ کے آف شور اثاثوں کا معاملہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کو بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا۔جسٹس فائزعیسیٰ نے اس فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔
بعد ازاں 29 اپریل 2021 کو سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف مزید کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم پی ٹی آئی حکومت نے ان خلاف ایک کیوریٹو ریویو ریفرنس دائرکیا تھا۔