وزیر اعظم نریندر مودی امریکا کے سرکاری دورے پرموجود ہیں ، بھارتی وزیراعظم اگرچہ اس سے پہلے بھی وائٹ ہاؤس کے مہمان بن چکے ہیں لیکن اس بار کے دورے کو ’اسٹیٹ وزٹ‘ کا درجہ حاصل ہے جو کہ عموماً سربراہان مملکت کے لئے مخصوص ہوتا ہے ۔
مختلف ممالک کے سربراہانِ مملکت اور رہنما سال بھر کے دوران امریکا آتے ہیں لیکن ہردورہ ’اسٹیٹ وزٹ‘ نہیں ہوتا۔ اسٹیٹ وزٹ اتنا غیرمعمولی ہے کہ نریندر مودی بھارت سے امریکہ کا اسٹیٹ وزٹ کرنے والے تیسرے رہنما ہے۔ پاکستانی رہنما بھی امریکہ کے تین اسٹیٹ وزٹ کر چکے ہیں لیکن ان میں کوئی بھی وزیراعظم شامل نہیں۔
غیر ملکی سربراہانِ مملکت کے دوروں کو 4 اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے اہم اسٹیٹ وزٹ، پھر آفیشل وزٹ، آفیشل ورکنگ وزٹ اور ورکنگ وزٹ آتے ہیں۔
کسی بھی پاکستانی سربراہ حکومت کے دورے کو ’اسٹیٹ وزٹ‘ کا درجہ نہیں دیا گیا ۔ تاہم پاکستان کے دو صدور مجموعی طور پر تین سرکاری دورے کر چکے ہیں۔
صدر ایوب خان نے امریکا کے دو سرکاری دورے کیے۔ پہلا 1961 میں اور دوسرا 1965۔
1982ء میں صدر ضیاء الحق کو سرکاری دورے پر مدعو کیا گیا۔
سرکاری دورے میں 21 توپوں کی سلامی، صدر سے ملاقات، سرکاری عشائیہ اور امریکی صدر کے سرکاری گیسٹ ہاؤس بلیئر ہاؤس میں چار دن اور تین راتوں تک قیام شامل ہے۔ سرکاری دورے میں رسمی روانگی کی تقریب بھی شامل ہوتی ہے۔
پاکستانی وزرائے اعظم (نواز شریف اور عمران خان) کے آخری دو دورے آفیشل ورکنگ وزٹ تھے۔
اب بات کی جائے اسٹیٹ وزٹ کی تو امریکا ہمیشہ جمہوریت کی بات کرتا ہے لیکن اُس کی سیاسی ترجیحات یہ واضح نہیں کرتیں کیونکہ پاکستان سے ’اسٹیٹ وزٹ‘ کرنے والے صدور فوجی پس منظررکھتے تھے اور اب تک کسی بھی حکومتی سربراہ کو اسٹیٹ وزٹ کیلئے مدعو نہیں کیا گیا ہے۔
مودی کے دورہ امریکا کے غیر معمولی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو بائیڈن نے اپنے دورِ صدارت میں صرف 3 بار سربراہانِ مملکت کو اسٹیٹ وزٹ کی دعوت دی ۔
مودی سے قبل فرانس اور جنوبی کوریا کے صدور کو اسٹیٹ وزٹ پر مدعو کیا گیا تھا۔
مودی واحد ہندوستانی یا واحد بھارتی وزیر اعظم نہیں ہیں جو سرکاری دورے پر گئے ہیں۔ اس سے قبل وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بھی 2009 میں یہ دورہ کیا تھا۔ بھارتی صدر رادھا کرشنن نے 1963 میں سرکاری دورہ کیا تھا۔