یونان کشتی حادثے کوایک ہفتہ گزرگیا، پیاروں کی زندگی کے لیے امیدیں دم توڑگئیں جبکہ لاشوں کی شناخت کے لئے ڈی این اے کا عمل جاری ہے اور انسانی اسمگلروں کے گرد بھی گھرا تنگ کیا جارہا ہے۔ جمعرات کو پہلی مرتبہ سرکاری حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ کشتی پر پاکستان اور آزاد کشمیر کے 209 افراد شریک تھے۔ اس سے قبل تعداد کا تعین ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔
یونان میں ہوئے کشتی حادثے کو ایک ہفتہ گزر گیا لیکن ناقابل تصور حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین آج بھی اپنے پیاروں کی تصاویر تھامے دعا کر رہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور ان کے پیارے سمندر کے بیچ ہونے والی اس تباہی میں ہلاک ہونے والوں میں شامل نہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کشتی حادثے میں ڈوبنے والوں کے زندہ بچ جانے کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔
یونان کے قریب کھلے سمندر میں الٹنے اور ڈوبنے والی ایک اوور لوڈ کشتی پر کم از کم 209 پاکستانی ”متاثرین“ تھے۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 181 کا تعلق پاکستان اور 28 کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔
مزید بتایا گیا ہے کہ حکام نے 201 خاندانوں کے ڈی این اے کے نمونے اکٹھے کیے ہیں تاکہ یونان میں لاپتہ پاکستانیوں کی شناخت میں مدد مل سکے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایجنسی نے کس بنیاد پر ان کی شناخت متاثرین کے طور پر کی۔
حادثے میں سرکاری طور پر اب بھی 82 افراد جان سے گئے جبکہ بچ جانے والوں کی تعداد 104 ہے، جن میں سے 12 پاکستانی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کشتی پر سیکڑوں افراد سوار تھے۔
یاد رہے کہ وزارت صحت نے متاثرہ خاندانوں کے ڈی این اے سیمپلز کیلئے کمیٹی بنائی ہے جو جاں بحق افراد کی شناخت کے لئے سیمپلز لے رہی ہے۔ کمیٹی چار رکنی ڈاکٹرز پر مشتمل ہے، جس میں ڈاکٹر فرخ کمال، ڈاکٹر فہیم طاہر، ڈاکٹر سدرہ ولی اور عمر ڈار شامل ہیں۔
قبل ازیں پنجاب فرانزک لیب کی ٹیم نے ایف آئی اے آفس میں ڈیسک قائم کیا جہاں گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، وزیر آباد اور کامونکی کے لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کے ڈی این اے کیے جا رہے ہیں۔
انسانی اسمگلرز کے خلاف کارروائیاں تیز کرکے 54 مقدمات درج کرلیے گئے، گوجرانوالہ سے مزید دو انسانی اسمگلرز گرفتار کرلیے گئے، واقعے میں ملوث انسانی اسمگلرز میں سے اب تک سترہ کو گرفتار کیا جا چکا ہے، دیگر ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ ایف آئی اے لاہور کے مطابق گجرات سے 7، لاہور سے 2 اور گوجرانوالا سے 8 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
یونان کشتی حادثہ کے مسافروں میں گجرات کا چودہ سالہ بچہ ابوذر بھی شامل ہے جو ماں باپ کی غربت ختم کرنے اور چھوٹے معذور بھائی کا علاج کرانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔
گجرات کے نواحی گاؤں ٹاہلی صاحب کا چودہ سالہ ابوذر نویں جماعت کا طالب علم تھا جس کا باپ اسکول وین چلاتا ہے۔ غربت سے تنگ ماں باپ نے ایجنٹ کی باتوں میں آکر کم عمر بیٹے کو اٹلی بھجوانے کے لیے اپنا مکان فروخت کیا۔
بیٹے کے لاپتہ ہونے پرغمزدہ والد محمد پرویز نے بتایا، ’میرا بیٹا کہتا تھا میں تمہاری غربت ختم کروں گا اور اپنے معذور بھائی کا علاج کراؤں گا۔‘
روتی بلکتی ماں نے کہا کہ بیٹا کہتا تھا، ”روٹی کھائیں کہ بچوں کا علاج کروائیں، میں وہاں جا کر کوئی کاروبار کرلوں گا ، دیہاڑی لگاؤں گا اور پیسے بھیجوں گا تو میرے بھائی کا علاج کروالینا۔ کہتا تھا ماں یہاں علاج کر وائیں یا پیٹ بھریں۔ اس نے نویں جماعت سے اسکول چھوڑ کر کہا تھا کہ میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاؤں گا تا کہ ہمارے دن پِھرجائیں“۔
یونان کشتی حادثے کے معاملے پر سیکرٹری اوورسیز پاکستانیز ذوالفقار حیدر نے اہم انکشاف کیا ہے۔ ذوالفقارحیدر کا کہنا ہے کہ جو لوگ زندہ بچے صرف ان کی شناخت ہو سکی ہے، جاں بحق ہونے والوں کی شناخت کا علم نہیں، ان افراد کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر وزارت داخلہ میں ایک سیل بنایا گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کو یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کو جلد مکمل کرنے اور ایف آئی اے کو ایسے واقعات کی روک تھام کے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔
شہباز شریف نے کمشنر گجرانوالہ کو بھی ضلع گجرانوالہ میں ایسے ایجنٹس کی نشاندہی کرکے انہیں جلد قانون کی گرفت میں لانے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے پوچھا کہ انسانی اسمگلرز کی کارروائیاں بروقت کیوں نہ روکی گئیں، اور پوچھا کہ متاثرین کا تعلق جن شہروں سے ہے وہاں ضلعی انتظامیہ حرکت میں کیوں نہ آئی؟
وزیراعظم نے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور تحقیقاتی کمیٹی کو جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی جبکہ وزیر داخلہ کو تحقیقات کی نگرانی اور ضروری قانون سازی کےلیے تجاویز مرتب کرنے کی بھی ہدایت کی۔
اپنے چچا کی تلاش میں بارسلونا سے یونان آنے والے نوجوان زوہیب شمریز نے برطانوی خبر رساں ادارے ”دی گارڈین“ سے گفتگو میں کہا، ’میں اپنے چچا ندیم کی زندہ ہونے کے آثار کی تلاش میں آیا ہوں۔‘ اس نے مزید کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ وہ (چچا ندیم) کشتی پر تھے کیونکہ میں نے ان کے (کشتی پر) سوار ہونے سے پانچ منٹ پہلے ان سے بات کی تھی‘۔
زوہیب نے بتایا کہ کشتی پر سینکڑوں لوگ تھے، میں نے اس سے کہا ’پلیز اس پر مت چڑھیں۔ کسی اور (کشتی) کا انتظار کرلیں۔‘
اکیس سالہ زوہیب ایک پاکستانی شہری ہے جو چھ سال قبل نوجوانی میں اپنی فیملی کے ساتھ یورپ پہنچا تھا۔
یونان کشتی حادثے میں صرف 104 مصری، پاکستانی، شامی اور فلسطینی مرد اور نوجوان زندہ بچ سکے ہیں، لیکن جو لوگ زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے انہوں نے وہ خوفناک تفصیلات بتائی ہیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
زندہ بچ جانے والوں نے یونانی حکام کو دیے گئے بیانات میں بتایا کہ بچے اور خواتین کشتی کے نچلے حصے میں تھے، کشتی الٹنے کے اس میں سوار افراد چند منٹوں میں ہی بحیرہ روم کے سب سے گہرے مقامات میں سے ایک میں غرق ہوگئے۔
لواحقین کے یہ بیانات منگل کو سامنے آئے جن میں انہوں نے تصدیق کی کہ تقریباً 750 افراد نے یورپ میں بہتر زندگی کی تلاش میں بلیو فشنگ ٹرالر پر جانے کیلئے ہزاروں ڈالر ادا کیے۔
زندہ بچ جانے والوں نے اپنے بیانات ریکارڈ کرواتے ہوئے پانچ دن کے خوفناک سفر کے چونکا دینے والے حالات بیان کیے ہیں۔ مسافروں نے بتایا کہ کس طرح انہیں کھانے اور پانی سے انکار کیا گیا، اور جن لوگوں نے کشتی کے اوپری حصے میں آنے کی کوشش کی انہیں کس طرح مارا پیٹا گیا۔
ان شہادتوں میں پچھلے بیانات کی بھی بازگشت سنائی دی کہ کشتی یونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے رسی باندھ کر کھینچے جانے کی کوشش کے دوران سمندر برد ہوئی۔ حالانکہ یونانی کوسٹ گارڈ اس کی تردید کرچکے ہیں۔
زندہ بچ جانے والے ایک شخص عبدالرحمٰن الحاز نے اپنے بیان میں کہا کہ، ’یونانی کشتی نے رسی ڈالی اور اسے ہماری کمانوں سے باندھ دیا گیا۔ ہم نے پکارا ”رکو، رکو!“ کیونکہ ہماری کشتی ٹیڑھی ہو رہی تھی، (یہ) خراب حالت میں تھی اور بوجھ زیادہ تھا، اسے نہیں باندھنا چاہیے تھا۔‘
شام سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ فلسطینی الحاز نے بتایا کہ اس نے مشرقی لیبیا میں تبرک کے مقام پر کشتی پر سوار ہونے کے لیے 4,000 ڈالر ادا کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرالر پر ”انچارج لوگ“ تمام مصری تھے، اور انہوں نے یونانی حکام کی جانب سے دکھائی گئی تصاویر میں سے سات مشتبہ افراد کو پہچانا۔
ایک اور یونانی اخبار ”ٹو ویما“ کے مطابق دوران تحقیق 36 سالہ عظمت خان محمد صالح نے تین مشتبہ افراد کی شناخت کی، ان میں مسافروں پر مار پیٹ کرنے والا بھی شامل تھا۔