Aaj Logo

شائع 21 جون 2023 10:24am

کشتی پر انسانی اسمگلر مارتے پیٹتے تھے، مسافروں نے 4 کو شناخت کرلیا

یونان کشتی حادثے میں صرف 104 مصری، پاکستانی، شامی اور فلسطینی مرد اور نوجوان زندہ بچ سکے ہیں، لیکن جو لوگ زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے انہوں نے وہ خوفناک تفصیلات بتائی ہیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

زندہ بچ جانے والوں نے یونانی حکام کو دئے گئے بیانات میں بتایا کہ کس طرح بچے اور خواتین کشتی کے نچلے حصے میں ہونے کی وجہ سے کشتی کے الٹنے اور چند منٹوں میں ہی بحیرہ روم کے سب سے گہرے مقامات میں سے ایک میں غرق ہوگئے۔

لواحقین کے یہ بیانات منگل کو سامنے آئے جن میں انہوں نے تصدیق کی کہ تقریباً 750 افراد نے یورپ میں بہتر زندگی کی تلاش میں بلیو فشنگ ٹرالر پر جانے کیلئے ہزاروں ڈالر ادا کیے ۔

زندہ بچ جانے والوں نے اپنے بیانات ریکارڈ کرواتے ہوئے پانچ دن کے اس جہنمی سفر کے چونکا دینے والے حالات بیان کیے ہیں۔

مسافروں نے بتایا کہ کس طرح انہیں کھانے اور پانی سے انکار کیا گیا، اور جن لوگوں نے کشتی کے اوپری حصے میں آنے کی کوشش کی انہیں کس طرح مارا پیٹا گیا۔

ان شہادتوں میں پچھلے بیانات کی بھی بازگشت سنائی دی کہ کشتی یونانی کوسٹ گارڈز کی جانبسے رسی باندھ کر کھینچے جانے کی کوشش کے دوران سمندر برد ہوئی۔ حالانکہ یونانی کوسٹ گارڈ اس کی تردید کرچکے ہیں۔

زندہ بچ جانے والے ایک شخص عبدالرحمٰن الحاز نے اپنے بیان میں کہا کہ، ’یونانی کشتی نے رسی ڈالی اور اسے ہماری کمانوں سے باندھ دیا گیا۔ ہم نے پکارا ”رکو، رکو!“ کیونکہ ہماری کشتی ٹیڑھی ہو رہی تھی، (یہ) خراب حالت میں تھی اور بوجھ زیادہ تھا، اسے نہیں باندھنا چاہیے تھا۔‘

شام سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ فلسطینی الحاز نے بتایا کہ اس نے مشرقی لیبیا میں تبرک کے مقام پر کشتی پر سوار ہونے کے لیے 4,000 ڈالر ادا کیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرالر پر ”انچارج لوگ“ تمام مصری تھے، اور انہوں نے یونانی حکام کی جانب سے دکھائی گئی تصاویر میں سے سات مشتبہ افراد کو پہچانا۔

ایک 22 سالہ مصری مبینہ اسمگلر کی نمائندگی کرنے والے وکیل اتھاناسیوس ایلیوپولوس نے اے پی کو بتایا کہ تمام 9 مشتبہ افراد نے عدالت میں الزامات سے انکار کیا اور خود کو تارکین وطن ہونے کا دعویٰ کیا۔

بچ جانے والے فلسطینی الحاز نے بتایا کہ زیادہ تر پاکستانی مسافر ڈوب گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عملے میں سے ایک نے مجھے بتایا تھا کہ کشتی پر 400 سے زیادہ پاکستانی سوار تھے اور صرف 11 کو بچایا گیا تھا۔

ان 11 افراد میں 23 سالہ رانا حسنین نصیر کی بیوی اور دو بچے شامل نہیں تھے۔

خود نصیر، جنہوں نے سفر کے لیے 7000 یورو ادا کیے، ڈیک پر سوار تھے۔

انہوں نے کہا۔ ’(عملے نے) ہمیں کھانا یا پانی نہیں دیا، اور ہمیں کھڑے ہونے سے روکنے کے لیے بیلٹ سے مارا۔‘

رانا نصیر نے کہا کہ دوسرے مسافروں نے اسے بتایا کہ ڈوبنے سے ٹھیک پہلے ایک ”بڑی کشتی“ کے ذریعے ٹو لائن منسلک کی گئی تھی۔

وہ یہ نہیں دیکھ پائے کیونکہ وہ ’جھک کر دعا کر رہے تھے‘۔

لیکن انہوں نے کشتی کے جھکاؤ کو محسوس کیا۔

رانا نصیر نے مزید کہا، ’ہم سب اس کو متوازن کرنے کے لیے دوسری طرف گئے، جس سے ہماری کشتی دوسری سمت جھک گئی اور ڈوب گئی۔‘

رانا نے اخبار کو بتایا، ’ہم نے بہتر زندگی کے لیے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا، اس لیے کہ وہاں میرا بھائی رہتا ہے۔ میں نے ”ر“ نامی پاکستانی کو آٹھ ہزار ڈالر پیشگی دیے۔ اس سے طے پایا کہ جب ہم اٹلی پہنچیں گے تو میرا بھائی بقیہ رقم دے گا جو مجھے نہیں معلوم کہ کتنی ہو گی کیونکہ میرے بھائی نے (ادائیگی) کا بندوبست کر دیا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا، ”ر“ نے مجھے اس میں سے دو ہزار ڈالر واپس دے دیے کہ میں یہ رقم لیبیا میں ”ا“ نامی ایک شخص کو دے دوں۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ اس کا بھائی تھا۔ وہ کشتی جس نے ہمیں یورپ لے جانا تھا، اسی کی تھی۔

’تقریباً ایک ماہ قبل ہم پاکستان سے ہوائی جہاز کے ذریعے دبئی اور وہاں سے مصر اور پھر ہوائی جہاز کے ذریعے لیبیا پہنچے۔ وہ ہمیں ایک گھر میں لے گئے جہاں 150 کے قریب دوسرے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم وہاں پانچ دن رہے اور پھر ”ا“ ہمیں ایک اپارٹمنٹ میں لے گیا، جہاں تقریباً 200 لوگ مقیم تھے۔

’ہم وہاں تقریباً 20 دن رہے اور پھر ”ا“ ہمیں شیشوں والے ایک مکان میں لے گیا جہاں تقریباً 300 لوگ رہ رہے تھے۔ ہم ایک رات وہاں رہے اور اگلے دن وہ ہمیں 12 کاروں میں لیبیا کے شہر تبروک کے ایک اپارٹمنٹ میں لے گئے۔ ہم وہاں کچھ دن رہے اور نو جون 2023 کو صبح کے وقت ٹرک میں ہمیں لیبیا کے ایک ساحل پر لے جایا گیا۔

’سمندر میں 30 میٹر لمبی مچھلیاں پکڑنے والی ایک بڑی کشتی تھی جو پرانی اور نیلے رنگ کی تھی۔ وہ ساحل سے ہمیں چھوٹی کشتیوں میں بٹھا کر بڑی کشی پر لے گئے۔ بڑی کشتی پر سوار ہونے کے بعد ہم نے دیکھا کہ اس کے نگران دو لوگ تھے۔ جب ہم کشتی پر سوار ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں کہاں بیٹھنا ہے۔ مجھے اوپری عرشے پر بٹھایا گیا اور میری بیوی اور بچوں کو ایک کیبن میں رکھا گیا۔‘

رانا نے مزید کہا کہ ’ہمارا سفر جمعے کی صبح شروع ہوا۔ کشتی پر تقریباً 700 افراد سوار تھے۔ ہم تین دن تک سمندر میں سفر کرتے رہے کہ کشتی کا انجن خراب ہو گیا۔ وہاں ایک شخص کشتی کے انجن کو ٹھیک کرتا رہا، مگر یہ بار بار خراب ہو جاتا تھا۔ 13 جون 2023 کی شام کو اسمگلروں نے کشتی کا انجن بند کر دیا تاکہ قریب سے گزرنے والے جہازوں کو آواز نہ آئے۔‘

’کشتی میں سوار کچھ مصریوں نے قریب سے گزرتے ہوئے ایک جہاز سے پانی مانگا۔ جہاز کے عملے نے پانی کے ڈبے پھینکے اور مصریوں نے سارا پانی اچک لیا اور ہمیں نہیں دیا۔ ہماری ان سے لڑائی شروع ہو گئی جس کے بعد انہوں نے ہمیں بھی تھوڑا سا پانی دیا۔‘

’پھر عملے نے دوبارہ انجن اسٹارٹ کیا اور کشتی آگے بڑھنے لگی۔ آدھے گھنٹے بعد کشتی کا انجن پھر بند ہو گیا۔ میں ڈر کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگا۔ اچانک مجھے کشتی ایک طرف جھکتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس میں پانی بھرنے لگا۔ ہم کشتی کے اس حصے سے ہٹ کر دوسری جانب چلے گئے، مگر اس طرف وزن زیادہ ہو گیا جس کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی۔‘

’کچھ لوگوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور کچھ نے کشتی کے مختلف حصوں کو پکڑ لیا۔ میں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی، لیکن چونکہ مجھے تیرنا نہیں آتا تھا، میں پانی کی سطح پر اپنی پشت کے بل لیٹ کر انتظار کرنے لگا کہ کوئی آ کر مجھے بچائے۔ چند منٹ بعد ایک بڑا جہاز وہاں سے گزرا اور جو لوگ سمندر میں تھے، انہیں اٹھا کر یہاں لے آیا۔ جو لوگ باہر نہ نکل سکے وہ کشتی سمیت پانی میں ڈوب گئے، ان میں میری بیوی اور بچے بھی شامل تھے جو کیبن میں تھے۔‘

ایک اور یونانی اخبار ”ٹو ویما“ کے مطابق رانا نے بتایا کہ ان کی بیوی نے سبز رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کے سر پر اسکارف تھا، جب کہ دونوں بچوں کے کپڑے سرخ رنگ کے تھے۔

ان ساتھی پاکستانی 36 سالہ عظمت خان محمد صالح نے تین مشتبہ افراد کی شناخت کی، جن میں سے ایک نے انہیں اور ایک جس نے مسافروں کو بیلٹ سے مارا تھا۔

نچلے حصے میں ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کشتی کیوں ڈوبی۔

اانہوں نے اپنی گواہی میں کہا کہ ’میں بچ گیا کیونکہ میں نے ایک کھلی جگہ پائی اور باہر نکل گیا۔‘

’میں نے دوسروں کو اپنے پیچھے آنے کے لیے کہا لیکن کوئی بھی بھاگنے میں کامیاب نہیں ہوا‘۔

یونان کو بین الاقوامی سمندر میں ڈوبنے سے قبل تارکین وطن کو بچانے کی کوشش نہ کرنے پر کڑی تنقید کا سامنا ہے۔

ایتھنز میں حکام کا کہنا ہے کہ مسافروں نے کسی قسم کی مدد سے انکار کر دیا اور اٹلی جانے پر اصرار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھیڑ بھاڑ سے بھری کشتی سے سیکڑوں لوگوں کو نکالنے کی کوشش کرنا بہت خطرناک ہوتا۔

کشتی کے ڈوبنے سے پہلے کی تصاویر اور ویڈیوز دکھاتی ہیں کہ لوگ ٹرالر کی تمام دستیاب کھلی جگہوں پر بھرے ہوئے ہیں۔

کشتی پر موجود شمال مشرقی شام کے قصبے کوبانی سے تعلق رکھنے والے علی شیخی نے کرد ٹی وی نیوز چینل ”رودا“ کو بتایا کہ اسمگلروں نے لائف جیکٹس پہننے کی اجازت نہیں دی اور مسافروں کے پاس جو بھی کھانا تھا اسے سمندر میں پھینک دیا۔

شیخی نے کہا کہ انہیں کشتی کے نچلے حصے میں جانے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انہوں نے اسمگلروں کو ڈیک پر نکلنے کے لیے ادائیگی کی۔

Read Comments