Aaj Logo

شائع 20 جون 2023 11:39am

’میرے بیوی بچے کشتی کے ساتھ ڈوب گئے‘

پاکستان سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ رانا نے ایک یونانی اخبار ”کاتھیمیرینی“ سے گفتگو میں اسمگلروں کے ہتھے چڑھنے سے لے کر کشتی ڈوبنے تک کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس سانحے میں رانا خود تو بچ گئے مگر ان کے بیوی بچے کشتی کے ساتھ ہی ڈوب گئے۔

رانا نے اخبار کو بتایا، ’ہم نے بہتر زندگی کے لیے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا، اس لیے کہ وہاں میرا بھائی رہتا ہے۔ میں نے ”ر“ نامی پاکستانی کو آٹھ ہزار ڈالر پیشگی دیے۔ اس سے طے پایا کہ جب ہم اٹلی پہنچیں گے تو میرا بھائی بقیہ رقم دے گا جو مجھے نہیں معلوم کہ کتنی ہو گی کیونکہ میرے بھائی نے (ادائیگی) کا بندوبست کر دیا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا، ”ر“ نے مجھے اس میں سے دو ہزار ڈالر واپس دے دیے کہ میں یہ رقم لیبیا میں ”ا“ نامی ایک شخص کو دے دوں۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ اس کا بھائی تھا۔ وہ کشتی جس نے ہمیں یورپ لے جانا تھا، اسی کی تھی۔

’تقریباً ایک ماہ قبل ہم پاکستان سے ہوائی جہاز کے ذریعے دبئی اور وہاں سے مصر اور پھر ہوائی جہاز کے ذریعے لیبیا پہنچے۔ وہ ہمیں ایک گھر میں لے گئے جہاں 150 کے قریب دوسرے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم وہاں پانچ دن رہے اور پھر ”ا“ ہمیں ایک اپارٹمنٹ میں لے گیا، جہاں تقریباً 200 لوگ مقیم تھے۔

’ہم وہاں تقریباً 20 دن رہے اور پھر ”ا“ ہمیں شیشوں والے ایک مکان میں لے گیا جہاں تقریباً 300 لوگ رہ رہے تھے۔ ہم ایک رات وہاں رہے اور اگلے دن وہ ہمیں 12 کاروں میں لیبیا کے شہر تبروک کے ایک اپارٹمنٹ میں لے گئے۔ ہم وہاں کچھ دن رہے اور نو جون 2023 کو صبح کے وقت ٹرک میں ہمیں لیبیا کے ایک ساحل پر لے جایا گیا۔

’سمندر میں 30 میٹر لمبی مچھلیاں پکڑنے والی ایک بڑی کشتی تھی جو پرانی اور نیلے رنگ کی تھی۔ وہ ساحل سے ہمیں چھوٹی کشتیوں میں بٹھا کر بڑی کشی پر لے گئے۔ بڑی کشتی پر سوار ہونے کے بعد ہم نے دیکھا کہ اس کے نگران دو لوگ تھے۔ جب ہم کشتی پر سوار ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں کہاں بیٹھنا ہے۔ مجھے اوپری عرشے پر بٹھایا گیا اور میری بیوی اور بچوں کو ایک کیبن میں رکھا گیا۔‘

رانا نے مزید کہا کہ ’ہمارا سفر جمعے کی صبح شروع ہوا۔ کشتی پر تقریباً 700 افراد سوار تھے۔ ہم تین دن تک سمندر میں سفر کرتے رہے کہ کشتی کا انجن خراب ہو گیا۔ وہاں ایک شخص کشتی کے انجن کو ٹھیک کرتا رہا، مگر یہ بار بار خراب ہو جاتا تھا۔ 13 جون 2023 کی شام کو اسمگلروں نے کشتی کا انجن بند کر دیا تاکہ قریب سے گزرنے والے جہازوں کو آواز نہ آئے۔‘

’کشتی میں سوار کچھ مصریوں نے قریب سے گزرتے ہوئے ایک جہاز سے پانی مانگا۔ جہاز کے عملے نے پانی کے ڈبے پھینکے اور مصریوں نے سارا پانی اچک لیا اور ہمیں نہیں دیا۔ ہماری ان سے لڑائی شروع ہو گئی جس کے بعد انہوں نے ہمیں بھی تھوڑا سا پانی دیا۔‘

’پھر عملے نے دوبارہ انجن اسٹارٹ کیا اور کشتی آگے بڑھنے لگی۔ آدھے گھنٹے بعد کشتی کا انجن پھر بند ہو گیا۔ میں ڈر کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دعائیں مانگنے لگا۔ اچانک مجھے کشتی ایک طرف جھکتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس میں پانی بھرنے لگا۔ ہم کشتی کے اس حصے سے ہٹ کر دوسری جانب چلے گئے، مگر اس طرف وزن زیادہ ہو گیا جس کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی۔‘

’کچھ لوگوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور کچھ نے کشتی کے مختلف حصوں کو پکڑ لیا۔ میں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی، لیکن چونکہ مجھے تیرنا نہیں آتا تھا، میں پانی کی سطح پر اپنی پشت کے بل لیٹ کر انتظار کرنے لگا کہ کوئی آ کر مجھے بچائے۔ چند منٹ بعد ایک بڑا جہاز وہاں سے گزرا اور جو لوگ سمندر میں تھے، انہیں اٹھا کر یہاں لے آیا۔ جو لوگ باہر نہ نکل سکے وہ کشتی سمیت پانی میں ڈوب گئے، ان میں میری بیوی اور بچے بھی شامل تھے جو کیبن میں تھے۔‘

ایک اور یونانی اخبار ”ٹو ویما“ کے مطابق رانا نے بتایا کہ ان کی بیوی نے سبز رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کے سر پر اسکارف تھا، جب کہ دونوں بچوں کے کپڑے سرخ رنگ کے تھے۔

Read Comments