یونان میں ہوئے کشتی حادثے کو چھ دن گزر چکے ہیں، لیکن اس ناقابل تصور حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین آج بھی اپنے پیاروں کی تصاویر تھامے دعا کر رہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور ان کے پیارے سمندر کے بیچ ہونے والی اس تباہی میں ہلاک ہونے والوں میں شامل نہ ہوں۔
پیر کو ایتھنز کے شمالی علاقے ملاکاسا میں تارکین وطن کی ایک فیسیلٹی کے فولادی دروازوں کے باہر انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔
’میں اپنے چچا ندیم کی زندہ ہونے کے آثار کی تلاش میں آیا ہوں۔‘
یہ کہنا تھا ایک نوجوان زوہیب شمریز کا جس کا بارسلونا سے یونان پہنچنے کے بعد پہلا پڑاؤ باڑ سے گھرا یہ کیمپ تھا۔
زوہیب نے برطانوی خبر رساں ادارے ”دی گارڈین“ سے گفتگو میں کہا، ’مجھے یقین ہے کہ وہ (چچا ندیم) کشتی پر تھے کیونکہ میں نے ان کے (کشتی پر) سوار ہونے سے پانچ منٹ پہلے ان سے بات کی تھی‘۔
زوہیب نے بتایا کہ کشتی پر سینکڑوں لوگ تھے، میں نے اس سے کہا ’پلیز اس پر مت چڑھیں۔ کسی اور (کشتی) کا انتظار کرلیں۔‘
اکیس سالہ زوہیب ایک پاکستانی شہری ہے جو چھ سال قبل نوجوانی میں اپنی فیملی کے ساتھ یورپ پہنچا تھا۔
اب اس کے چچا ندیم محمد، جن کے ساتھ وہ بچپن میں اپنے آبائی پنجاب میں کھیلتا تھا، وہ بھی یہاں آنا چاہتے تھے۔
زوہیب یہاں ٹیکسی چلانا سیکھ رہا ہے، آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں لیے اس نرم گو نوجوان نے روایتی شلوار قمیض میں ملبوس ندیم کی تصاویر دکھاتے ہوئے بتایا، ’ان کے تین بچے تھے‘۔
’وہ وہاں سے نکلنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ بہت غریب تھے۔ وہ روزانہ 20 ڈالر تک کماتے تھے۔ دیکھیں، یہ لیبیا میں کشتی کے روانہ ہونے سے ایک رات پہلے ان کی ایک اور تصویر ہے۔‘
ایک اندازے کے مطابق مرد، خواتین اور بچوں پر مشتمل 750 بدنصب افراد اس کشتی پر سوار تھے، جسے موت کا فرشتہ خود دھکیل کر جائے انجام تک لے کر گیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس حادثے میں لقمہ اجل بننے والے زیادہ تر پاکستانی ہیں۔
یونانی کوسٹ گارڈ کو دی گئی گواہوں کی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانیوں کو خواتین اور بچوں کے ساتھ کشتی کے نچلے حصے میں ”بند“ کیا گیا تھا۔
تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔
افغانوں، شامیوں اور مصریوں کو علیحدہ گروپس میں اوپری ڈیک پر رکھا گیا تھا، جہاں تِل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔
شاہد نواب یونان میں موجود 30 ہزار پاکستانیوں پر مشتمل بڑی کمیونٹی کے سربراہ ہیں، تارکین وطن کی اس فیسیلٹی (عمارت جہاں کشتی حادثے کے تارکین وطن کو رکھا گیا ہے) سے باہر آتے ہوئے انہوں نے گارڈین سے گفتگو میں کہا، ’اب ہم جانتے ہیں کہ کشتی میں ہمارے 400 کے قریب لوگ سوار تھے۔‘
شاہد نواب نے مزید کہا کہ 104 زندہ بچے لوگوں میں سے صرف 12 کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ اس کیمپ میں ہیں۔ اب تک ملنے والی 78 لاشوں میں سے زیادہ تر پاکستانی ہیں۔
نواب، سن 2000 میں کرسمس کے دن یونان پہنچے تھے، اس وقت یورپ جانا بہت آسان تھا۔
انہوں نے گارڈین کو بتایا کہ 30 ہزار نفوس پر مشتمل پاکستانی کمیونٹی نے زندہ بچے لوگوں کی مدد کے لیے ریلی کا انعقاد کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کپڑے اور خوراک جمع کرلی ہے اور جب انہیں اس کیمپ سے نکلنے کی اجازت دی جائے گی، ہم انہیں پناہ دیں گے۔ ’ہمارا ملک آج قومی سوگ میں ہے۔‘
یونان کی وزارت برائے مہاجرین کے حکام نے پیر کو بتایا کہ حادثے میں زندہ بچنے والے اب بھی اس سفر کے صدمے سے نکلے نہیں ہیں۔
کیمپ کے گھومنے والے انٹری پوائنٹس کے باہر کھڑے ایک شخص نے کہا، ’وہ ابھی تک شاک میں ہیں اور بہت بری نفسیاتی حالت میں ہیں۔‘
’وہ بہت زیادہ سو رہے ہیں۔ سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے کے عمل سے گزرنے کے بعد وہ یہاں سے چلے جائیں گے۔‘
صرف زوہیب ہی نہیں جو اپنے چچا کے غم میں مبتلا ہے۔
بیرون ملک اور پاکستان میں موجود لاپتا افراد کے لواحقین کا غم ایک جیسا ہے۔
محمد یوسف نے آخری بار اپنے بیٹے ساجد سے 8 جون کو آخری بار بات کی تھی، ان کا بیٹا لیبیا میں اسمگلروں کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا جو اسے اور سینکڑوں دیگر افراد کو بحیرہ روم کے دوسرے کنارے تک لے جانے والی کشتی میں سوار کرتے۔
لیکن چھ دن بعد، وہ کشتی یونان کے ساحل پر ڈوب گئی۔
آزاد کشمیر کے چھوٹے سے قصبے کھوئی رٹہ کا رہائشی 28 سالہ ساجد ایک دکاندار ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔
لیکن اب وہ ان سینکڑوں لاپتہ افراد میں شامل ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ کشتی حادثے میں زندہ نہیں بچ سکے۔
یوسف نے آنکھوں میں آنسو لیے گارڈین سے گفتگو میں کہا ’میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ جائے، اس کے بڑے بھائی نے بھی اسے اس خطرناک سمندری سفر پر نہ جانے کا مشورہ دیا۔‘
انہوں نے کہا، ’یہ (سفر) بالکل آگ پر چلنے جیسا ہے جو کسی بھی وقت آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ ہم نے اسے کئی بار (اس سفر) کو روکنے کو کہا، یہاں تک کہ ہم نے اسے لیبیا سے ہی واپس آنے کو بھی کہا۔‘
ساجد یوسف کھوئی رٹہ کے ان 25 افراد میں سے ایک تھا جو لیبیا میں کشتی پر سوار ہوئے۔ ان میں سے ابھی تک صرف دو کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ساجد کا ارادہ اٹلی پہنچنے کا تھا، جہاں اس کا بھائی رہتا ہے، جو 12 سال پہلے اسی طرح کا کشتی سے وہاں پہنچا تھا۔
حادثے کے بعد وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ساجد کو اپنے چار سالہ بیٹے سے واپسی پر اس کیلئے سائیکل لانے کا وعدہ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
دی گارڈین نے کھوئی رٹہ میں تقریباً ایک درجن خاندانوں سے بات کی جن کے بیٹے اور بھتیجے اس کشتی پر سوار تھے۔
سبھی نے بتایا کہ ان کے رشتہ داروں نے ایک ایجنٹ کو 22 لاکھ پاکستانی روپے ادا کیے، جس نے انہیں یونان پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔
بہت سے خاندانوں نے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھاری قرضے لیے۔
جن لوگوں نے یہ سفر شروع کیا ان میں سے زیادہ تر کو اٹلی پہنچنے کی امید تھی، جہاں اس علاقے سے تقریباً 500 لوگ پہلے نقل مکانی کر چکے تھے۔
ساجد کا کزن 29 سالہ توقیر پرویز بھی کشتی میں سوار تھا، جو اپنے پیچھے اپنی حاملہ بیوی چھوڑ گیا تھا اور اب لاپتہ ہے۔
توقیر کے والد ایک اینٹوں کے بھٹے میں مزدور تھے، جنہوں نے ایجنٹ کو ادائیگی کے لیے تقریباً 20 دوستوں اور رشتہ داروں سے رقم ادھار لی تھی۔
کشتی پر سوار گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کی طرح توقیر بھی پاکستان سے ایک پرواز کے ذریعے لیبیا روانہ ہوا۔
اس نے بقایا سفر کے اخراجات کی رقم جمع کرنے کے لیے دو سال تک سعودی عرب میں کام کیا، اور مئی میں یورپ کا اپنا غیر قانونی سفر شروع کیا۔ 9 جون کی صبح 5 بجے، اس نے اپنے اہل خانہ کو آخری پیغام بھیجا کہ وہ کشتی پر ہے۔
توقیر کے والد محمد پرویز نے گارڈین کو بتایا کہ جب میں نے اسے اس خطرناک سفر سے روکنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے کہا کہ پاکستان میں رہنے سے ہمارا معیار زندگی کبھی بہتر نہیں ہوگا۔ ’وہ ہمارے مستقبل اور معیار زندگی کو تبدیل کرنے پر اٹل تھا۔ میں نہیں جانتا کہ اس کی حاملہ بیوی کو کس طرح تسلی دوں جو کئی دنوں سے رو رہی ہے۔‘
انتالیس سالہ عبدالجبار نانبائی تھا اور دو بچوں کا باپ تھا۔ اس نے بھی اٹلی پہنچنے کی امید میں 5 جون کو دبئی اور پھر وہاں سے دوسری پرواز لیبیا کی لی۔
عبدالجبار کے والد محمد انور نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے پریشانی کے عالم میں گھر فون کیا اور ان خراب حالات کے بارے میں بتایا جن میں اسے اور دیگر کو رکھا گیا تھا۔ یہ آخری بار تھا جب انہوں نے اس سے بات کی۔
انور نے بتایا، ’اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ اگر اسے لیبیا کے حالات کا علم ہوتا تو وہ کبھی (ملک) نہ چھوڑتا۔‘
’انہیں 24 گھنٹوں میں تھوڑی سی روٹی دی گئی اور اس نے کہا کہ وہ بھوک سے مر رہے ہیں۔ وہ واپس آنا چاہتا تھا لیکن وہ بے بس تھا کیونکہ وہ پہلے ہی پیسے دے چکا تھا۔‘
اسی طرح ایک بیوہ روبینہ کوثر نے بتایا کہ ان کا بیٹا 26 سالہ احمد چھ ماہ قبل لیبیا گیا اور اسے بھی اسمگلروں کے ہاتھوں خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
روبینہ نے کہا کہ انہوں نے اسے کھانے کو کچھ نہیں دیا، اس سے مزید رقم نکلوانے کی کوشش کے لیے اسے مارا پیٹا اور فرار ہونے سے روکنے کے لیے اس کا پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات لے گئے۔
روبینہ نے کہا، ’اسے ایجنٹ کے ساتھ لڑائی کے بعد سزا کے طور پر چار دن کے لیے ایک تاریک کوٹھری میں رکھا گیا تھا، کیونکہ اس نے ایک چھوٹی سی کشتی پر جانے کی 19 پیشکشوں سے انکار کر دیا تھا اور ایجنٹ کو کہا تھا کہ اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ یہ سفر بڑی کشتی پر ہوگا‘۔
کشتی کے روانہ ہونے سے پہلے اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک فون کال میں احمد نے خوش ہوکر بتایا کہ وہ آخر کار ایک بڑے فشنگ ٹرالر پر سفر کر رہا ہے۔
روبینہ نے کہا، ’میرے بیٹے نے موت سے پہلے بہت تکلیف اٹھائی تھی۔ پہلے اسمگلروں کے ہاتھوں اور پھر سمندر میں۔ وہ شدید درد سے گزرا ہوگا، ہمیں انصاف چاہیے، حکومت گہری نیند میں سو رہی ہے۔ ہمارے لیڈر جلدی کیوں نہیں جاگے۔ کیا انہیں عام لوگوں، عام زندگیوں کی پرواہ نہیں ہے؟‘
کھوئی رٹہ کے لوگوں نے کہا کہ پاکستان کی خوفناک معاشی صورتحال اور ملک میں مواقع کی کمی رشتہ داروں کو ہجرت پر مجبور کرتے ہیں۔
اس سے قبل پاکستان میں بہت سے لوگوں نے یورپ میں داخل ہونے کے لیے ایران اور ترکی کے ذریعے زمینی سفر کیا تھا، لیکن ترکی کی سخت پالیسیوں کے باعث اب بہت سے لوگ لیبیا جانے کے بعد یونان جانے والی کشتی پر سوار ہونے کا انتخاب کر رہے تھے۔
مقامی لوگوں کے مطابق اس علاقے سے تقریباً 100 افراد اب بھی کشتیوں پر سوار ہونے کا ارادہ رکھتے ہوئے لیبیا میں موجود ہیں، لیکن اسمگلروں کے فون بند کرنے کے بعد ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
محمد حنیف کا بھتیجا سمیر چھ بچوں کا باپ ہے اور ایک ٹریکٹر ڈرائیور ہے، حنیف کا کہنا ہے کہ، ’یہ غربت ہے جس نے اسے اس پُرخطر سفر پر مجبور کیا‘۔خدشہ ہے کہ سمیر بھی دیگر کی طرح کشتی حادثے کا شکار ہوچکا ہے۔
’اس غربت نے اس (سمیر) کی جان لے لی۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے غربت نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس نے اپنے آبائی شہر کے لوگوں کو اٹلی میں اچھا کام کرتے اور پیسے گھر بھیجتے دیکھا، اور وہ یہ دیکھ کر وہاں جانے پر مجبور ہوا۔‘
ابھی تک گاؤں کے صرف دو افراد حسیب اور عدنان بشیر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ کشتی حادثے میں بچ پائے ہیں۔
عدنان مقامی روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہو گیا تھا اور اس نے پہلے بھی دو بار ایران اور ترکی کے راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی، لیکن سرحدی محافظوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد وہ ناکام ہو گیا۔
اس سفر کو برداشت کرنے کے لیے، اس نے 3 مئی کو روانہ ہونے سے پہلے اپنی تمام بھینسیں جو کہ اس کی واحد روزی روٹی تھی اور اپنی بیوی کے زیورات بیچ ڈالے۔
عدنان کے والد بشیر احمد جو ایک ریٹائرڈ فوجی ہیں، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک رشتہ دار کے ذریعے بات کی تھی۔ جس نے بتایا کہ کشتی کوسٹ گارڈ کے رسی باندھنے کے بعد الٹ گئی تھی، تاہم یہ الزام یونانی حکام نے مسترد کر دیا ہے۔
’عدنان نے کہا کہ کشتی جب ڈوبنے لگی تو اس نے چھلانگ لگا دی، اس نے کہا کہ خواتین اور بچے ڈیک کے نیچے تھے اور وہ باہر نہیں آسکتے تھے۔‘
احمد نے کہا، ’میں خوش قسمت ہوں کہ میرا بیٹا بچ گیا۔‘