یونان کے ساحل پر 14 جون تارکین وطن سے بھری ایک کشتی ڈوبی، جس کے نتیجے میں 300 سے زائد پاکستانی ہلاک ہوئے۔
چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے اتوار کو ایک بیان میں ان اعداد و شمار کا انکشاف کیا۔
لیکن سی این این کے مطابق یونانی حکام نے ابھی تک کسی بھی پاکستانی کی ہلاکت تصدیق نہیں کی ہے۔
پاکستان کے حالات سے تنگ، بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے کیلئے خطرناک راستوں سے گزرنے والے متاثرہ پاکستانیوں کی تعداد پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔
اور اب یورپی رہنماؤں نے بھی اسے بدترین سانحہ قرار دے دیا ہے۔
یورپی یونین کے کمشنر برائے داخلہ امور یلوا جوہانسن کے مطابق، اقوام متحدہ کی مائیگریشن ایجنسی (IOM) نے کہا کہ اس بھری کشتی میں تقریباً 750 مرد، خواتین اور بچے سوار تھے، جس سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں اور بحیرہ روم میں ہونے والے اس سانحے کو بدترین میں سے ایک بنا دیا۔
جوہانسن نے ”اسمگلروں“ کے کردار کی مذمت کی جنہوں نے لوگوں کو کشتیوں پر چڑھایا۔
انہوں نے کہا، ’وہ انہیں یورپ نہیں بھیج رہے، وہ انہیں موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں اور اسے روکنا بالکل ضروری ہے۔‘
یونانی حکام کو اس تباہی سے نمٹنے کے طریقے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ، اور تارکین وطن کے حوالے سے یورپی ممالک کے رویوں کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
خطرات کے باوجود، دسیوں ہزار لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کا غیر محفوظ سفر کرنے کے لیے سب کچھ خطرے میں ڈالنے کو تیار ہیں۔
جس کیلئے بہت سے یورپی ممالک نے اپنی سرحدوں اور تارکین وطن کے حوالے سے اپنا مؤقف سخت کر لیا ہے۔
گزشتہ ہفتے یونانی حکام نے ان دعوؤں کی تردید کی تھی کہ کوسٹ گارڈ نے کشتی ساحل تک لے جانے کی کوشش کی، جس کے بعد کشتی الٹ گئی تھی۔
لیکن ایک شخص، طارق الدروبی، جس کے جہاز میں تین رشتہ دار تھے، اس نے سی این این کو بتایا کہ انہوں نے یونانی حکام کو رسیوں سے کشتی کو کھینچتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ ”غلط جگہوں“ پر بندھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے کشتی الٹ گئی۔
الدروبی نے کہا کہ ”ان کی کشتی اچھی حالت میں تھی اور یونانی بحریہ نے انہیں ساحل پر لے جانے کی کوشش کی لیکن رسیاں غلط جگہوں پر بندھی ہوئی تھیں۔ جب یونانی بحریہ نے انہیں کھینچنے کی کوشش کی تو اس کی وجہ سے کشتی الٹ گئی۔“
یونانی قومی نشریاتی ادارے ای آر ٹی سے بات کرتے ہوئے، حکومتی ترجمان الیاس سیکنڈریس نے کہا کہ کوسٹ گارڈ کشتی کے الٹنے سے دو گھنٹے قبل اس کے انجن کے خراب ہونے کے بعد وہاں پہنچے اور دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔
انہوں نے ای آر ٹی کو بتایا کہ ”انجن صبح 1:40 پر خراب ہوا اور 2:00 بجے کشتی ڈوب گئی، اس لیے (کوسٹ گارڈ کی کشتی کے قریب آنے اور اس کے ڈوبنے کے وقت) کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہو سکتا“۔
ہیلینک کوسٹ گارڈ نے بھی اپنے ردعمل کا دفاع کیا۔
کوسٹ گارڈ کے ترجمان نکوس الیکسیو نے سی این این کو بتایا کہ جب کشتی الٹی تو ہم کشتی کے قریب بھی نہیں تھے۔ ہم اسے کیسے کھینچ سکتے ہیں؟“
تاہم، یونان کے سابق وزیر ٹرانسپورٹ کرسٹوس اسپرٹز نے پوچھا، ”وہ ویڈیو کہاں ہے، وہ ویڈیو جو ریسکیو آپریشن کی لی جانی چاہیے تھی؟ یہ اہم سوال ہے۔“