سپریم کورٹ نے ریویو اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیخلاف داٸر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ۔
سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اورریویواینڈججمنٹ ایکٹ سےمتعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک آئینی معاملے کیلئے پورے آئین کو کیسے نظرانداز کریں،اپیل کا حق دینے کیلئے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ نظرثانی اور اپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ عدالت کو حقاٸق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
پنجاب انتخابات اورریویواینڈججمنٹ ایکٹ کیس کی سماعت چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں سُپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔ بینچ کے دیگرارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 188کے تحت عدالت کو نظر ثانی کا اختیارہے۔ آرٹیکل 188کے تحت کوٸی حد مقرر نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کااختیارقانون سازوں کےپاس موجودہے، نظرثانی اوراپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھاجاسکتاہے؟ عدالت کو حقاٸق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اگرنظرثانی کاداٸرہ اختیاربڑھادیاجائےتوکیاتفریق نہیں ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کےاختیارسےمتعلق سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے موجود ہیں، آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں نظرثانی کیلئے الگ دائرہ کار رکھا گیا ہے۔ نظرثانی اپیل کے حق سے کچھ لوگوں کے ساتھ استحصال ہونے کا تاثر درست نہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ، ”اٹارنی جنرل صاحب آہستہ آہستہ دلائل سے ہمیں سمجھائیں،آپ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کے حق سے پہلے آئین لوگوں کا استحصال کرتا رہا ہے،ایک آئینی معاملے کیلئے پورے آئین کو کیسے نظرانداز کریں“۔
جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایکٹ سے پہلے 184/3 میں نظرثانی کا کوئی طریقہ نہیں تھا، حکومتی قانون سازی سے کسی کیساتھ استحصال نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کیلئے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ بھارت میں بھی آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں براہ راست نظرثانی اپیل کا حق نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا ، ”آپ چاہتے ہیں عدالت قانون سے اپیل والا لفظ حذف کر دے؟“ ، جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس طرف نکتے پر ابھئ نہیں آیا تھا، نظرثانی قانون کی لفاظی میں مسائل ضرور ہیں، نظر ثانی میں نئے گراؤنڈز لینے سے بھی حقائق پرفرق نہیں پڑے گا، بھارتی سپریم کورٹ 2002 کےفیصلے میں نئے گراونڈزکو درست کہہ چکی ہے، نظرثانی قانون کی لینگویج میں مسئلہ ہوسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہپہلے فیصلہ دینے والے ججز نظر ثانی کے لیے قائم لارجر بنچ کا حصہ بن سکتے ہیں، بینچ کی تشکیل کا معاملہ عدالت پر ہی چھوڑا گیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ یعنی3 رکنی بنچ فیصلہ دے تو کیا 4 رکنی بنچ نظرثانی کر سکے گا؟ جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر سے مراد لارجر ہے، جتنے بھی جج ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آئینی دائرہ کار کی بات کررہے ہیں، نظرثانی میں غلطی ہوتوپہلے کا فیصلہ دیکھنا ہوگا، اپیل میں پہلے فیصلے میں کوئی غلطی دکھانا ہوتی ہے، آپ کیس کی دوبارہ سماعت کی بات کرریے ہیں اس کا کوئی تو گراؤنڈ ہوگا، ہم آپ کی یہ باتتسلیم کرتے ہیں کہ 184(3) کے خلاف ریمڈی ہونی چاہیے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے استفسارکرتے ہوئے کہا کہ آپ تو اس کیس میں فریق ہی نہیں ہیں۔ جسٹس منیب اخترنے کہا کہ اس کیس میں وفاق نے جواب دینا تھا انہوں نے دے دیا۔
جواب میں وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ مجھے صرف 10 منٹ دیے جائیں عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں تحریری طور پر دے دیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے وڈیو لنک پر جوابی دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ سوال یہ ہے جو کیا گیا دوبارہ قانون سے ہوسکتا ہے یا آئنی ترمیم کے ذریعے ہوتا ہے؟ اٹارنی جنرل اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے۔ اٹارنی جنرل کا پیش کیا گیا بھارتی فیصلہ کا حوالہ ہم سے مطابقت نہیں رکھتا،نظر ثانی کے لیے کاجر بنچ بنانے سے پورے کیس کی سماعت دوبارہ ہوگی۔ بینچ میں شامل نئے ججز کو دوبارہ کیس سننا ہی ہوگا اور اگر صرف نظرثانی کی بات ہے تو فیصلہ میں غلطی ہوتو پہلا بنچ خود ہی درست کرسکتا ہے۔
درخواست گزار غلام محی الدین اور زمان وردگ نے بھی علی ظفر کے دلائل اپنا لیے۔
دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے ریویو اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیخلاف داٸر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف جسٹس نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ تمام وکلاء کا بہت شکریہ، ”محفوظ فیصلہ جلد سنائیں گے۔ دیکھیں کیس کا کیا ہوتا ہے۔“
سپریم کورٹ کی جانب سے وکلاء کو دو سے تین دن میں تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔
اس سے قبل 15 جون کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس عمر نے ریمارکس دیے تھے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جا سکتا ہےلیکن نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں، ہمیں حکومت کی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر بل 26 مئی کو صدر مملکت عارف علوی کے دستخط کے بعد 2023 قانون بن گیا تھا جس کے بعد آرٹیکل 184/3کے تحت دیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی درخواست دائر کرنے کا حق ہوگا۔ مذکورہ بل 14 اپریل کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد 5 مئی کو سینیٹ سے بھی منظورکرلیا گیا تھا۔
نئے قانون کے تحت آرٹیکل 184/3کے تحت فیصلوں پر 60 روز کے اندر نظر ثانی اپیلیں دائر کی جاسکتی ہیں جن کی سماعت فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔
الیکشن کمیشن نے 23 مارچ 2023 کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کردیے تھے جو 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول تھے، اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فیصلہ آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئےکیا گیا، پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبرکو ہوں گے اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔
ردعمل میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کیلئے 25 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو سماعت کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے۔ آئین و قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، 8 اکتوبر کی تاریخ سے دائرہ اختیار سے تجاوزکیا گیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں صدر مملکت کی دی گئی تاریخ بحال کرتے ہوئے 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان صوبائی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا،تاہم ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پرعملدرآمد نہیں کیاجاسکا۔