آڈیو لیکس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی کمیٹی میں طلبی کے خلاف کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی، عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن اور وکیل درخواست گزار سردار لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس بابر ستار نے بیرسٹر اعتزاز احسن اور دیگر کو عدالتی معاون مقرر کیا تھا۔ میاں رضا ربانی، مخدوم علی خان اور بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا بھی عدالتی معاونین ہیں۔
عدالت نے عدالتی معاونین سے آڈیو ریکارڈنگ کے معاملے پر معاونت طلب کر رکھی ہے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے، اور استدعا کی کہ جو سوالات سپریم کورٹ میں زیر بحث ہیں ان پر فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔
عدالتی معاون بیرسٹر اعتزاز احسن کو روسٹرم پر بلایا گیا، عدالت نے ان سے کہا کہ کچھ قانونی نکات ہیں ان پر آپ کی معاونت چاہیے ہوگی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ میں کہا کہ عدالت نے کچھ سوالات اٹھائے تھے ان کے جوابات کے لیے آپ کو بلایا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مبینہ آڈیو لیکس کے معاملے پر کمیشن قائم کیا، عدالت نے جو سوالات اٹھائے وہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی ہیں، سپریم کورٹ نے بھی ان سوالات پر فیصلہ سنانا ہے۔
عدالت نے کہا کہ آپ ہمارے پانچ سولات پر ہی معاونت کریں، معاملہ بلآخر سپریم کورٹ میں ہی جانا ہے، ہو سکتا ہے ہم کوئی فیصلہ دیں تو وہ سپریم کورٹ کے لیے معاونت ہو۔
اس موقع پر سردار کطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، حکومت چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر کیسے جوڈیشل کمیشن بنا سکتی ہے؟ حکومت کو چاہئے تھا کہ چیف جسٹس سے مشاورت کرتی اور وہ ججز نامزد کرتے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو عدالتی سوالات کے جواب دینے میں کتنا وقت چاہیے ہو گا؟ آپ کو چار ہفتے کا ٹائم دیتے ہیں۔
عدالت نے سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی خصوصی کمیٹی میں طلبی کے خلاف حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے درخواست پر سماعت 16 اگست تک ملتوی کر دی۔