یونان کشتی حادثے کے بعد پاکستان میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث 11 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
یونان کے سمندر میں خوفناک کشتی حادثے میں بڑی تعداد میں پاکستانی لاپتہ ہیں، ہفتہ کی شام تک لاپتہ پاکستانیوں میں سے 63 کے نام ان کے پاکستان اور آزادکشمیر میں مقیم اہلخانہ کے ذریعے سامنے آچکے تھے۔ کشتی پر سوار پاکستانیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے میرپور سے ہے لیکن گجرات، گجرانوالہ اور دیگر اضلاع کے کافی نوجوان بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔
یونان کے ساحل پر درجنوں تارکین وطن کے ڈوبنے کی خبر ملنے کے بعد پاکستان اور آزاد کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، جہاں اپنے کے دور ہوجانے کا غم ہے وہیں انسانی اسمگلنگ کے گھناونے کاروبار میں ملوث افراد کے حوالے سے کارروائیاں سخت کردی گئی ہیں، اور حادثے کے بعد اب تک 11 مبینہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گھناونے کاروبار میں ملوث 9 افراد کا تعلق آزاد جموں و کشمیر سے ہے، اور حادثے کے زیادہ تر متاثرین کا تعلق آزاد کشمیر سے ہی ہے، ایک شخص کو گجرات سے حراست میں لیا گیا ہے، جو ایک عرصے سے اس کاروبار میں ملوث رہا ہے۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق یونان کشتی حادثہ میں ملوث ایک انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ کو شیخوپورہ سے گرفتار کیا گیا ہے، اور اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ طلحہ شاہزیب نامی ایجنٹ نے متاثرہ فیملی سے پیسے وصول کئے، اور مجموعی طور پر 35 لاکھ روپے وصول کئے، ملزم سے مزید تفتیش جاری ہے۔
آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی عہدیدار چوہدری شوکت کے مطابق فوری طور پر ان لوگوں سے تحقیقات کی جارہی ہیں جو انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے معاون یا سہولت کار رہے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے یونان کشتی حادثے میں بڑی تعداد میں پاکستانی شہریوں کی اموات پر کل یوم سوگ منانے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے، جس کے مطابق کل تمام سرکاری عمارات میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے حادثے کی تحقیقات کے لئے 4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا دی ہے، جس کے سرابراہ ڈی جی نیشنل پولیس بیورو احسان صادق ہوں گے، جب کہ فارن آفس، ایف آئی اے اور آزاد کشمیر پولیس کے اراکان بھی شامل ہوں گے۔ کمیٹی کے ٹی او آرز جاری کر دیئے گئے ہیں۔
پناہ گزینوں کی بین الاقوامی تنظیم اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشتی میں 400 سے 750 افراد سوار تھے۔
برطانوی صحافی سکندر کرمانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی کشتی حادثے میں بچ جانے والے ایک فرد سے بات ہوئی ہے، اور اس نے بتایا ہے کہ کوسٹ گارڈ کی جانب سے کشتی کو رسی سے باندھنے کی کوشش کے فوراً بعد کشتی الٹ گئی، اس کشتی میں تقریباً 750 افراد سوار تھے۔ جن میں سے تقریباً 400 پاکستانی، 200 مصری اور 150 شامی تھے۔