یونان کے سمندر میں خوفناک کشتی حادثے میں 60 سے زائد پاکستانیوں کی ہلاکت کے بعد مسلسل نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں۔
جہاں یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد حالات و واقعات اور متاثرین کی تعداد آہستہ آہستہ واضح ہوتی جارہی ہے، وہیں ایک برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ الٹنے والی کشتی میں پاکستانیوں کو انتہائی خطرناک حصے میں رکھا گیا تھا۔
سمندر سے اب تک 183 افراد کو نکالا جا چکا ہے، جن میں سے 104 زندہ اور 79 برآمد ہوئے ہیں۔
برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ کی ایک [رپورٹ][1] میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی تارکین وطن کو کشتی کے نچلے ڈیک پر رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے ھادثے کی صورت میں ان کا زندہ رہنا تقریباً ناممکن تھا۔ جبکہ دیگر افراد کو جہاز کے اوپری حصے پر رکھا گیا تھا جو قدرے محفوظ جگہ تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر پاکستانی کشتی کے عملے سے پانی مانگتے یا نچلے ڈیک سے نکلنے کی کوشش کرتے تو انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا۔
گارڈین کی اسٹوری میں کشتی میں موجود خواتین اور بچوں کی حالت زار پر بھی روشنی ڈالی گئی اور بتایا گیا کہ انہیں مردوں سے بچانے کیلئے کشتی کے ہولڈ یا کارگو سیکشن میں رکھا گیا تھا اور انہیں اندر بند کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ کشتی کے حالات اتنے خراب تھے کہ اس میں تازہ پانی ختم ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں چھ افراد پہلے ہی ہلاک ہوگئے تھے۔
رپورٹ میں زندہ بچ جانے والوں کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہاز کا انجن سمندر میں جانے کے تقریباً تین دن بعد فیل ہو گیا تھا، یعنی یہ کشتی ڈوبنے سے پہلے کئی دنوں تک بغیر کسی مدد کے تیرتی رہی تھی۔