ریٹائر سرکاری ملازم شاہد محمود نے اپنے بیٹے کو بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کا سفر نہ کرنے پر آمادہ کرنے کی پوری کوشش کی تھی، لیکن 25 سالہ شہریار سلطان جانے کے لیے بضد تھا۔
اب، اس کے والد کو خدشہ ہے کہ ان کا بیٹا بدھ کو یونان کے قریب اُس ہلاکت خیز کشتی حادثے کا شکار ہوگیا ہے، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں، اور ان میں کئی پاکستانی بھی شامل ہیں۔
اہلِ خانہ شہریار کے زندہ ہونے کی دعائیں کر رہے تھے، لیکن جمعہ کی شام تک امید دم توڑنے لگی تھی۔
ساٹھ سالہ شاہد محمود نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک مقامی ٹریول ایجنٹ نے ان کے بیٹے کو باہر بھیجنے کے لیے 22 لاکھ روپے اس وعدے کے ساتھ وصول کیے تھے کہ وہ یورپ میں اچھی کمائی کرے گا۔
انہوں نے کہا، میں نے اسے روکنے کی کوشش کی، اس سے کہا کہ اس بارے میں بھول جاؤ، لیکن ٹریول ایجنٹ نے اسے مکمل طور پر برین واش کر دیا تھا، (ٹریول ایجنٹ نے) اسے کہا تھا، ’تم صرف دو سے تین دن کے لیے راستے میں رہو گے گے۔‘
شاہد محمود نے کہا، ’میرا بیٹا بے وقوف تھا، اس لیے وہ ان کے ساتھ چلا گیا۔‘
لیکن شاہن نے ایجنٹ کا نام نہیں بتایا۔
پاکستان کی معیشت ریکارڈ مہنگائی اور گزشتہ سال تباہ کن سیلاب کی وجہ سے معاشی سست روی اور حالیہ سیاسی صورت حال کے باعث تباہ حالی کا شکار ہے۔
ایسے میں لوگ کچھ لوگ بیروزگاری سے تنگ آکر تو کچھ حکموت اور اداروں کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شاہد محمود نے کہا کہ ان کے بیٹے کے پاس کوئی سفری دستاویزات، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ نہیں تھا، لیکن جن لوگوں نے اس سفر کا اہتمام کیا، انہوں نے اسے وسطی شہر فیصل آباد سے پرواز میں بٹھایا۔
شاہد محمود نے بتایا کہ لیبیا جانے والے جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ان کا بیٹا دبئی میں دو دن رہا، پھر چھ دن مصر میں، اس جہاز اتنے لوگ تھے کہ کئی فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔
شہریار نے سمندر کی طرف روانہ ہونے سے پہلے تقریباً چار ماہ طرابلس میں گزارے، والد کے بقول وہ بہت خراب حالات تھے۔
شاہد محمود نے کہا کہ جب انہوں نے لیبیا کے حالات کے بارے میں سنا تو اس نے ایجنٹ سے اپنے بیٹے کو گھر واپس بھجوانے کی کوشش کی، لیکن کچھ نہیں ہوا۔
شاہد نے بتایا کہ انہوں نے آخری بار اپنے بیٹے سے اس وقت بات کی تھی جب وہ ایک کشتی پر سوار ہوا تھا، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہی کشتی ہے جو ڈوبی۔
شاہد محمود نے کہا، ’اس نے ایک (ٹیکسٹ) پیغام بھیجا کہ وہ ایک کشتی میں تقریباً 400 سے 500 افراد کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اور پانچ یا چھ دن تک سمندر میں رہنے کی امید ہے‘۔
شہریار سلطان کے کزن عدنان افتخار نے بتایا کہ جمعہ کو خاندان اس بات کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہا کہ مرنے والوں میں شہریار کا ایک ساتھی بھی شامل ہے۔
بدھ کو سمندر میں ہونے والی اس تباہی میں مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ سکتی ہے، عینی شاہدین کے مطابق 400 سے 750 کے درمیان لوگ مچھلی پکڑنے والی اس کشتی میں بھرے ہوئے تھے جو جنوبی یونان کے شہر پائلوس سے تقریباً 50 میل (80 کلومیٹر) کے فاصلے پر ڈوبی۔
یونانی حکام نے کہا ہے کہ 104 زندہ بچ گئے ہیں اور 78 کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ مزید لوگوں کے زندہ ملنے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے ہفتے کے روز جاری بیان میں کہا کہ کشتی حادثے میں بچ جانے والوں میں بارہ پاکستانی بھی شامل ہیں، لیکن ان کے پاس یہ تعداد یا شناخت نہیں کہ کتنے پاکستانی ہلاک ہوئے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتہ کو اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’میرے ہمدردیاں اور دعائیں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے یونان کے ساحل پر بحیرہ روم میں بدقسمت کشتی حادثے میں اپنے پیاروں کو کھو دیا۔‘
یونان کے سرکاری حکام نے کہا ہے کہ ڈوبنے والی کشتی پر سوار زیادہ تر افراد کا تعلق مصر، شام اور پاکستان سے تھا۔
شاہد محمود نے کہا، ’یہ سب بہت غلط ہے۔ حکومت کو ان تمام قسم کے (ٹریول) ایجنٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’یہ ظلم ہے۔ سراسر ظلم جو والدین کے دل کو ایسی تکلیف پہنچاتا ہے جس پر وہ ساری زندگی کبھی قابو نہیں پا سکیں گے۔‘