ایس ایچ او لنڈی کوتل ابراہیم کو ہفتے کی صبح سات بجے اسکول کے چو کیدار مراد علی کی طرف سے کال آئی کہ اسکول کے کوارٹر میں اسسٹنٹ سب ڈویژن ایجوکیشن آفیسر فی میل لنڈی کوتل رضوانہ کی لاش ملی ہے۔
آج ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایچ او لنڈی کوتل نے بتایا کہ فون کال موصول ہونے کے بعد 7 بج کر 15 منٹ پر وہ اپنی پولیس ٹیم کے ساتھ اسکول پہنچے، جس کی چار دیواری کے اندر ہی رہاشی کوراٹر کے برآمدے میں ہی انہیں مقتولہ رضوانہ کی اوندھی پڑی لاش دکھائی دی۔
ایس ایچ او کے مطابق لاش کی پیٹھ اور جسم کے مختلف حصوں پر زخم تھے جبکہ کوارٹر کے دو کمروں کے فرش پر خون کے دھبے بھی تھے۔
اسکول کے چوکیدار مراد علی کے بیان کے مطابق وہ 4 ماہ قبل اسکول میں تعینات ہوئے جبکہ ASDEO رضوانہ اور ان کی فیملی دو ماہ قبل ہی اسکول کے اندر قائم کوارٹر میں منتقل ہوئی تھی۔
چوکیدار کے بیان میں بتایا گیا کہ صبح 6 بج کر 55 منٹ پر جب وہ آیا تو اسکول کو تالا لگا ہوا تھا جو کہ اس کے لئے ایک نئی بات تھی۔ اس لئے اس نے رضوانہ کے شوہر کو آوازیں دیں۔ لیکن اندر مکمل خاموشی تھی جس پر وہ چابی لینے واپس اپنے گھر گیا جو کہ اسکول سے 20 سے 30 فٹ کے فاصلے پر واقع تھا۔
تالا کھول کر وہ کوارٹر کی طرف گیا تو وہاں بھی مکمل خاموشی تھی۔ جس پر اس نے رضوانہ کے شوہر کو مزید آوازیں دیں، لیکن کوئی جواب نہیں ملا تو وہ کوارٹر کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا، جہاں سامنے برآمدے میں ہی رضوانہ کی لاش پڑی تھی۔
اس نے باہر آکر پولیس اور پھر اہل علاقہ کو اس کی اطلاع دی۔
چوکیدار کے مطابق رضوانہ کو چوکیدار کا رات کو وہاں رہنا پسند نہیں تھا اور چونکہ اس کا گھر قریب تھا تو وہ رات کو گھر چلا جاتا تھا، لیکن کبھی اسکول کے دروازے کو تالا نہیں لگایا گیا تھا، اس کی وجہ کوارٹر میں فیملی کا ہونا تھا۔
چوکیدار کے بیان کے مطابق رضوانہ کے شوہر نجیب اللہ کی ملازمت نہیں تھی وہ گھر پر رہتا تھا اور کسی سے میل ملاپ نہیں رکھتا تھا۔
اسسٹنٹ سب ڈویژن ایجوکیشن آفیسر (اے ایس ڈی ای او) رضوانہ کا تعلق خیبر پخنوتخوا کے جنوبی ضلع بنوں سے تھا، لنڈی کوتل سے قبل وہ سوات میں ملازمت کرتی تھیں اور دو ماہ قبل ہی ان کا لنڈی کوتل میں تبادلہ ہوا تھا۔
مقتولہ رضوانہ گذشتہ دو ماہ سے اسسٹنٹ سب ڈویژن ایجوکیشن آفیسر فی میل لنڈی کوتل کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں رہی تھیں اور وہ اپنے شوہر نجیب اللہ اور چار بچوں کے ساتھ گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول میری خیل کے کوارٹر میں رہائش پذیر تھیں۔
بنوں کے علاقے ڈومیل کی پولیس نے مقتولہ رضوانہ کے شوہر ملزم نجیب اللہ کو بنوں کی تحصیل ڈومیل سے گرفتار کیا۔
پولیس کے مطابق مقتولہ ایجوکیشن آفیسر کو چھریوں کے وار کرکے قتل کیا گیا، ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے۔
ملزم نے اپنے اعترافی بیان میں پولیس کو بتایا کہ دونوں کے درمیان کافی عرصے سے ناچاقی تھی اور اس سے قبل بھی کئی جھگڑے ہو چکے تھے، لیکن (قتل سے پہلے کی) رات کا جھگڑا شدت اختیار کر گیا تھا۔
اسسٹنٹ سب ڈویژن ایجوکیشن آفیسر فی میل لنڈی کوتل رضوانہ کی نماز جنازہ رات 9 بجے تحصیل ڈومیل کے علاقے کوٹکہ محمد خان میں ادا کردی گئی۔ نماز جنازہ میں لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی، جہاں ہر آنکھ اشکبار تھی۔
نجیب اللہ اور مقتولہ کی پسند کی شادی ہوئی تھی، چار بچے جن میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے، جن کی عمریں چھ سے سات سال ہے۔
نجیب اللہ کا تعلق تحصیل ڈومیل کوٹکہ محمد خان سے ہے جبکہ مقتولہ بنوں سٹی سے تعلق رکھتی تھی۔ قریبی دوست کے مطابق نجیب اللہ آج سے تقریباً 12 سال پہلے 5 سال تک ٹی بی کا مریض رہا ہے۔
نجیب اللہ تعلیم یافتہ تھا اور ورکنگ فوکس گرائمر اسکول میں ملازم تھا۔ ٹی بی کے بعد وہ نارمل نہیں تھا۔
اس سے پہلے بھی اپنی بیوی کے ساتھ کئی بار لڑائی کی جس کی وجہ سے نجیب اللہ نے خود کو مارنے کی کوشش کرکے خود پر پستول سے فائر کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ زخمی بھی ہوا تھا۔
واضح رہے کہ آج اس افسوسناک واقعے پر نجیب کے گھر والے رنجیدہ ہیں بتایا گیا کہ نجیب اللہ کو گھروالوں نے ہی پولیس کے حوالے کیا ہے۔