لبنان کی پارلیمنٹ 12ویں مرتبہ بھی صدر کا انتخاب کرنے میں ناکام ہوگئی، جو کئی مہینوں سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔
لبنانی قانون سازوں نے بُدھ کے روز سابق صدر مائیکل عون کے مُتبادل صدر کا انتخاب کرنے کے لئے ایک اجلاس منعقد کیا، جن کےعہدے کی مدت گزشتہ اکتوبرمیں ختم ہوگئی تھی۔
واضح رہے کہ اصل مقابلہ سابق وزیر خزانہ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے سینئر عہدیدار جہاد ازور اور مارڈا پارٹی کے رہنما سلیمان فرنگیہ کے درمیان تھا، جن کے خاندان کی لبنانی سیاست میں ایک طویل تاریخ ہے۔
اس حوالے سے بیروت سے رپورٹ کرتے ہوئے الجزیرہ کی زینہ خدر نے بتایا کہ حزب اللہ اتحاد نے اجلاس سے اسی طرح واک آؤٹ کیا جیسا کہ ان کی جانب سے گزشتہ11 ووٹوں کے دوران کیا تھا۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لبنانی پارلیمنٹ کتنی عدم استحکام کا شکار ہوچکی ہے۔ حزب اللہ نے مؤقف پیش کیا کہ وہ اپوزیشن کے امیدوار کو قبول نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ لبنانی پارلیمنٹ کو ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں نئے لیڈر کے انتخاب کے لیے مُمکنہ زیادہ سے زیادہ 128 قانون سازوں میں سے 86 یا دو تہائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
جہاد ازور، جنہیں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے، پہلے راؤنڈ کے دوران سلیمان فرنگیہ کے 51 کے مقابلے میں 59 ووٹوں کے ساتھ اپنے حریف سے زیادہ برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
اس کےعلاوہ کہا جارہا ہے کہ 18 قانون سازوں نے خالی بیلٹ ڈالے یا احتجاجی ووٹ ڈالے یا اقلیتی امیدواروں کو ووٹ دیا۔ جس کے بعد حزب اللہ کی قیادت میں بلاک ابتدائی راؤنڈ کے بعد دستبردار ہوگیا جس سےکورم ٹوٹ گیا اور ووٹنگ کے دوسرے مرحلے کو روکا گیا، جہاں امیدواروں کو صدارت حاصل کرنے کے لیے صرف 65 ووٹوں کی اکثریت درکارتھی۔
یہاں واضح رہے کہ لبنان کا ایک پیچیدہ سیاسی نظام ہے، جس کی بنیاد قومی معاہدے پر ہے۔ یہ ملک کے سیاسی بلاکس کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے جس پر پہلی بار1943 میں عقیدے کی بنیاد پر نمائندگی اور اقتدار کی تقسیم طے کرنے پراتفاق کیا گیا تھا۔
معاہدے کے مطابق صدر اور فوج کے کمانڈر کا میرونائٹ عیسائی ہونا ضروری ہے، جبکہ وزیراعظم کا سُنی مسلمان اور پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ مسلمان ہونا چاہیے۔
پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر اور نائب وزیراعظم کے عہدے یونانی آرتھوڈوکس عیسائیوں کے پاس ہیں اور مسلح افواج کے سربراہ ہمیشہ ڈروز (مغربی ایشیا کا ایک عربی بولنے والا گروہ ہے) ہوتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے شیعہ اراکین نے بڑے پیمانے پر سلمان فرنگیہ کی حمایت کی ہے،جو حزب اللہ کے پسندیدہ امیدوار ہیں جبکہ جہاد ازور کو ڈروز قانون سازوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
منتخب ہونے کے بعد نومنتخب صدر کو 2019 میں شروع ہونے والے ایک بڑے معاشی بحران سے نمٹنا پڑے گا، اس کے ساتھ ہی ایک سیاسی نظام جو طویل عرصے سے بدعنوانی اور بدانتظامی کا شکار ہے اس کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔