میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمان نے جماعت اسلامی میں باضابطہ شمولیت 2000 میں اختیار کی، وہ اس وقت امیر جے آئی کراچی ہیں۔
میئر کراچی کے انتخابات 15 جون کو آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں شیڈول ہے، جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمان اور پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کراچی کے میئر کے عہدے کے مضبوط ترین امید وار ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان 1970 میں حیدرآباد (سندھ) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، اور کراچی یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اور وہ اس وقت جماعت اسلامی کراچی کے امیر ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان نے 1990 میں اپنا سیاسی سفر جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم ”اسلامی جمعیت طلبہ“ سے شروع کیا۔ 1994 میں ان کو این ای ڈی یونیورسٹی میں ”اسلامی جمیعت طلبہ“ کا ناظم بنایا گیا اور وہ دو بار اس عہدے پر برقرار رہے۔
انہوں نے جماعت اسلامی میں باقاعدہ طور پر2000 میں شمولیت اختیار کی، وہ جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری، جنرل سیکرٹری اور نائب امیر کے طور پر بھی کام کرتے رہے اور 2013 میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر بنے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کراچی کی الیکٹرک یوٹیلیٹی کمپنی کے الیکٹرک کے خلاف بہت سے مظاہروں کی قیادت کی ہے، حکومت کی جانب سے کے الیکٹرک کے ساتھ مبینہ طور پر جانبداری، اور اس کے صارفین کو ان کے پیسے واپس نہ کرنے کے معاملے میں کراچی کے عوام کے ساتھ مبینہ طور پر ناانصافی پر جدوجہد کی اور عدالتوں سے بھی رجوع کیا۔
حافظ نعیم الرحمان نے وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی 2022 کے بلدیاتی انتخابات میں اقتدار میں آئی تو کراچی کے پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے مسائل کو حل کریں گے، تاہم 2022 کے بلدیاتی انتخابات کے دوران، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خراب موسم کو وجہ بتاتے ہوئے 24 جولائی 2022 سے 28 اگست 2022 تک انتخابات کی طے شدہ تاریخ میں تاخیر کی۔
کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے اور بلدیاتی اداروں سے متعلق قانون میں کی گئی ترمیم کے خلاف حافظ نعیم نے جماعت اسلامی کی تحریک کی قیادت کی۔ جماعت اسلامی کراچی نے سندھ اسمبلی کے باہر 29 روزہ دھرنا دیا اور آخرکار 28 جنوری 2022 کو سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2021میں ترمیم اور دیگر مطالبات مان لیے اور جماعت اسلامی کے ساتھ باقاعدہ ایک معاہدہ کیا گیا، اورلوکل گورنمنٹ ایکٹ کا جائزہ لینے کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی بنائی گئی۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات کرانے میں بھی حافظ نعیم کا ہی کردار رہا ہے، جنہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن اور حکومت سندھ کو فریق بناتے ہوئے درخواست دائر کی، جب کہ کراچی کی تمام جماعتیں بشمول ایم کیو ایم پاکستان، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے لوکل بوڈیز الیکشن کی مخالفت کی اور عدالت میں درخواستیں بھی دائر کیں، تاہم عدالت نے جماعت اسلامی کی درخواست منظور کرتے ہوئے کراچی میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم صادر کیا، جس کے بعد انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔
کراچی میں میئر و ڈپٹی میئر اور ٹاؤن کے چیئرمین، وائس چیئرمین کا الیکشن 15 جون جمعرات کو ہوگا، اور شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹ شمار کیے جائیں گے۔
15 جون صبح 9 بجے سے ساڑھے 10 بجے تک سٹی کونسل کے 366 ارکان کو پولنگ اسٹیشن آرٹس کونسل آڈیٹوریم میں داخلے کی اجازت ہوگی، صبح ساڑھے 10 بجے آواز لگانے کے بعد پولنگ اسٹیشن کے دروازے بند کردیےجائیں گے۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرنگ آفیسر اراکین کو پولنگ کا عمل سمجھائیں گے، اور 11 بجے کے بعد شو آف ہینڈ کے ذریعے ووٹ شمار کیے جائیں گے، ووٹ دینے کے لیے نہ آنے والوں سے نتائج یا انتخابی عمل پر فرق نہیں پڑے گا، اگر کورم پورا نہ ہوا تو میئر و ڈپٹی میئر کے لیے سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار کامیاب قرار پائے گا۔
پولنگ اسٹیشن میں موجود اہل ووٹرز کی اکثریت کی بنیاد پر کامیابی کا فیصلہ ہوگا، بالکل ایسے ہی شو آف ہینڈ کے ذریعے ٹاؤن میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا الیکشن ہوگا۔