Aaj Logo

اپ ڈیٹ 14 جون 2023 03:12pm

قبائلی جرگے نے جہیز اور طلباء کے اسمارٹ فون استعمال کرنے پر پابندی لگادی

بونیرکے علاقے انظر میرہ میں معاشرتی اصلاح کیلئے 20 نکاتی دستور متعارف کرا دیا گیا، جس میں جہیز پر پابندی اور خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے کا فیصلہ شامل ہے، دستور کے تحت طلباء کے اسمارٹ فون استعمال کرنے پر پابندی ہوگی۔

بونیر کی دور افتادہ تحصیل چغرزی کے پہاڑی گاؤں انظر میرہ میں مقامی جرگہ نے سابقہ رسم و رواج ترک کرنے کے لئے نیا دستور پیش کر دیا۔

گاؤں کے علمائے کرام کی جانب سے پیش کئے جانے والے دستور میں کہا گیا کہ شادی بیاہ، فوتگی اور معاشرتی زندگی میں ایسے رسم و رواج موجود ہیں جو شریعت اور معاشرتی اُصولوں کے خلاف ہیں، اس لئے مل بیٹھ کر ان فرسودہ رسومات کو ترک کرنے کے لئے نیا دستور متعارف کروانا لازمی ہے۔

20 نکاتی دستور میں کیا ہے ؟

آج ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے مولوی علیم سید نے بتایا کہ متفقہ طور پر غمی خوشی اور معاشرتی تقریبات میں اصلاحات کے لئے 20 نکاتی دستور متعارف کروایا گیا ہے اور اگر گاؤں والے اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو زندگی آسان ہوجائے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دستور میں کہا گیا ہے شادی بیاہ میں جہیز کے نام پر فریج، واشنگ مشین، ڈبل بیڈ سمیت فرنیچر یا دیگر غیر ضروری سامان کا تقاضہ کرنے پر پابندی ہوگی۔

تاہم یہاں یہ بھی واضح کیا گیا کہ اگر کوئی اپنی بہن یا بیٹی کے لیے کچھ کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ نقد رقم دے سکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شادی کی مبارکباد کے موقع پر بھی صرف سو روپے کی رقم مقرر کی گئی ہے اور اس دوران مہمانوں کو چائے کے ساتھ بسکٹ پیش کئے جائیں گے۔

ولیمے اور خیرات کے بعد شاپر میں چاول کی تقسیم پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ شادی یا نکاح کے وقت بارات میں 15 سے زائد افراد کا جانا بھی ممنوع تصور کیا جائے گا۔

دستور میں 14 سال سے کم عمر بچوں کے موٹر سائیکل چلانے، طلباء کے اسمارٹ فون کے استعمال، خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ اور گاؤں میں اجنبی شخص کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ بہن بیٹی کو شریعت کے مطابق جائیداد میں حصہ دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

مولوی علیم سید نے بتایا کہ دستور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شادی کے موقع پر زیادہ تکلفات نہیں کئے جائیں گے، کسی کے ہاں بیمار پرسی کے موقع پر کوئی بھی چیز نہیں لے کر جانے کے رواج کی بھی ممانعت ہوگی، جبکہ منشیات بیچنے والوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کیا جائے گا۔

مولوی علیم سید نے بتایا کہ کسی کے گھر فوتگی کے موقع پر بھی کچھ رہنما اُصولوں کو مد نظر رکھا جائے گا۔

ایک سالہ بچے کی فوتگی کے فاتحہ خوانی کے لیے خواتین اور مرد نہیں جائیں گے، جنازے کے بعد مردے کے چہرے کو دیکھنے پر پابندی ہوگی، جبکہ عید کے موقع پر پہلے سے وفات پانے والوں کے گھروں میں جانے اور قبروں پر حاضری دینا بھی ممنوع ہو گا۔

اس دستور کو متعارف کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

جرگہ ممران کا کہنا ہے کہ بنیادی مقصد مہنگائی کے اس دور میں عام آدمی کو ریلیف دینا ہے۔ ہم نے یہ دستور ایسے وقت میں پیش کیا ہے کہ مہنگائی سے ہر ایک پریشان ہے اور موجودہ دور میں ان رسومات کو پورا کرنا کسی کی بس سے باہر ہو گیا ہے، لیکن معاشرتی دباؤ کی وجہ سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی رواج پر عمل درآمد پر مجبور تھے۔

دوسری جانب اہل علاقہ نے بھی دستور کو مانتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے تو ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔

علمائے کرام نے بھی گاؤں کے رہائشوں، انتظامیہ اور دیگر عمائدین سے اپیل کی کہ ان نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

Read Comments