اتوار کو لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر سبز اور سرخ پرچموں کے ساتھ پلے کارڈز لہراتے تقریباً 200 افراد کا ہجوم جمع ہوا۔
اس ہجوم نے ”آج نہیں تو کب“ کے نعرے بلند کئے۔
اس ریلی کا اہتمام پی ٹی آئی کی جانب سے کیا گیا تھا۔
اوور سیز پاکستانیوں نے پی ٹی آئی برطانیہ میں مقیم پارٹی اراکین کے ساتھ متحد ہو کر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات اور قانون کی حکمرانی کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ آج کل پاکستان میں پی ٹی آئی کے کارکنان اور حامیوں کو احتجاج کرنے پر گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن دیگر ممالک میں پی ٹی آئی سپورٹرز کے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، اور پاکستانی میڈیا کے برعکس عالمی میڈیا ان مظاہروں کو بھرپور کوریج دے رہا ہے۔
چئیرمین پی ٹی آئی اپنی خارجہ پالیسی، گرتی ہوئی معیشت اور ٹی ٹی پی کے مسلح گروپ کی بحالی پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنے کے بعد عدم اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے تھے اور انہیں وزارت عظمیٰ کو خیرباد کہہ کر گھر جانا پڑا تھا۔
عمر کی 30ویں دہائی میں داخل ہوچکی ڈیجیٹل میڈیا کی ماہر مدیحہ نے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی چئیرمین کی اقتدار سے بے دخلی تک کبھی کسی سیاسی احتجاج میں شرکت نہیں کی تھی۔
لیکن مدیحہ نے لندن میں ہوئے اس احتجاج میں شرکت کے لیے تین گھنٹے سے زیادہ گاڑی چلائی۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا اس وقت پاکستان کی یہ حالت ہے، مجھ سمیت دوسروں کا خیال ہے کہ یہ ناانصافی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خان صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کی غیر ملکی حمایت یافتہ مہم کا حصہ ہے۔
خیال رہے کہ چئیرمی ن پی ٹی آئی کو معزول کیے جانے کے بعد ان کے حامی پاکستان کی سڑکوں پر نکل آئے تھے، اس کے بعد بیرون ملک ان کے حامیوں نے بھی کئی احتجاجی مظاہرے کئے۔
اس سال مئی میں چئیرمین پی ٹی آئی کو پاکستان کی اینٹی کرپشن ایجنسی نے گرفتار کیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، پولیس نے صحافیوں سمیت چار ہزار سے زائد افراد کو گرفتار اور حراست میں لیا۔
حکومت نے مظاہرین پر پولیس اور سرکاری عمارتوں کے ساتھ ساتھ فوجی اثاثوں اور تنصیبات پر حملے کا الزام لگایا۔
چئیرمین پی ٹی آئی نے الزامات کی تردید کی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
مدیحہ نے کہا، ’اپنے 26 سالوں کی سیاست میں خان صاحب نے کبھی تشدد کا مطالبہ نہیں کیا، لہٰذا پاکستان کی سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا ہے (ان پر) اسے بھڑکانے کا الزام لگانا ناانصافی ہے۔‘
برطانیہ میں پرامن احتجاج کو انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
اتوار کے روز مظاہرین میں سے ایک نے کہا، ’پاکستان کے اندر، نئی حکومت کے تحت اب اظہار رائے کی آزادی نہیں رہی، اس لیے یہ اوورسیز پاکستانیوں پر منحصر ہے کہ وہ آواز اٹھائیں … صرف ہم ہی باقی ہیں جو اب بھی آواز اٹھا سکتے ہیں۔‘
مدیحہ نے کہا کہ مظاہرین چاہتے تھے کہ برطانیہ کی حکومت کارروائی کرے۔
انہوں نے کہا، “ہمیں پاکستان کے مستقبل کے لیے، موجودہ حکومت کی طرف سے نظر بند کی جانے والی خواتین، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قانون کی حکمرانی کی طرف واپسی کے لیے اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔’
مدیحہ نے بیرون ملک جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے برطانوی حکومت کے وعدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’مغربی جمہوریتیں ہمیشہ قانون کی حکمرانی، خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرتی رہتی ہیں، تو اب وہ مدد کیوں نہیں کر رہی ہیں؟‘
الجزیرہ کا کہنا ہے کہ جہاں پاکستان کے اندر چئیرمین پی ٹی آئی کے حامیوں کو مبینہ طور پر دھمکیاں دی گئیں، ان پر تشدد کیا گیا اور حراست میں لیا گیا، وہیں پاکستان سے باہر مظاہرہ کرنے والوں کے اہل خانہ کو پاکستان میں نشانہ بنانے کی اطلاع بھی ہے۔
لندن میں شیخ احسن باقی احتجاجی ہجوم سے قدرے دور کھڑے تھے۔
رومفورڈ میں رہنے والے ریٹائرڈ نیول افسر نے الجزیرہ کو بتایا کہ لاہور میں ان کے بیٹے کو تین ہفتے قبل حراست میں لیا گیا تھا اور خان کی حمایت کرنے پر پاکستانی پولیس نے اس پر تشدد کیا تھا۔
احسن نے کہا، ’میں یہاں خان کی حمایت کرنے آیا ہوں۔ ہم حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اسے رہا کرے اور اس کے خلاف لگائے گئے جھوٹے الزامات کو ختم کرے۔‘
چئیرمین پی ٹی آئی کو 12 مئی کو رہا کیا گیا تھا، لیکن انہیں 100 سے زیادہ بدعنوانی اور ”دہشت گردی“ کے الزامات کا سامنا ہے۔
وہ موجودہ حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں
حالیہ ہفتوں میں پی ٹی آئی کے 80 سے زائد سینئر ارکان پارٹی چھوڑ چکے ہیں، جبکہ کچھ نے ایک نئی جماعت استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے، جو پی ٹی آءی چئیمرین کے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین نے بنائی ہے۔
شہریار فضلی نے تجویز کیا کہ پی ٹی آئی اراکین کے بڑے پیمانے پر اس اخراج کو ممکنہ طور پر حراست کے دوران ڈرا دھمکا کر قابل عمل بنایا گیا تھا۔
شہریار فضلی نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی اس اکتوبر میں انتخابات میں جاتی ہے تو اس کے الیکشن جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔