سپریم کورٹ میں آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئےخط لکھ چکے ہیں۔
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا وہ خط انور مجید کے وکیل کو دکھایا گیا ہے؟
انور مجید نے وکیل نے کہا کہ نیب کو بھی بیرون ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نیب ریفرنس پر نام ای سی ایل میں ڈالا تھا، جب تک نیب تسلیم نہ کرلے ہم حکم جاری نہیں کرسکتے، دوسری صورت میں پھر کیس کو تفصیلی سن کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب بیان دے انور مجید کا کیس ان کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
انور مجید کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ انور مجید کی 81 سال عمر ہے، انہیں فوری سرجری کی ضرورت ہے،
عدالت نے نیب کا احتساب عدالت میں دیا گیا بیان طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کے کیس میں سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی اور اومنی گروپ کے مالک انور مجید کو 2018 میں سپریم کورٹ میں کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فرالو تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات جاری ہیں۔
یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35 ارب روہے بتائی گئی تھی۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فرالن تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔
تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔
15 مارچ 2020 کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔
جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔
مذکورہ کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فرالب تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری میں مسلسل توسیع ہوتی رہی، تاہم آصف زرداری کو 10 جون جبکہ ان کی بہن کو 14 جون کو گرفتار کرلیا تھا جن کے ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی۔
بعدازاں گزشتہ برس 11 دسمبر کو سابق صدر آصف زرداری اور 17 دسمبر کو ان کی ہمشیرہ فرالم تالپور جبکہ رواں سال 27 فروری کو اومنی گروپ کے ڈائریکٹر عبدالمجید غنی کی ضمانت منظور کرلی گئی تھی۔
9 جون 2023 کو احتساب عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری ، فرالل تالپور، حسین لوائی و دیگر کے خلاف چار ریفرنس نیب کو واپس بھجوائے تھے۔