وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2023-24 کاوفاقی بجٹ جمعہ 9 جون کو خاصے اعتماد کے ساتھ پیش کردیا جس کی سب سے خاص بات سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اور عوام کو ریلیف دینے والے اقدامات سے متعلق رہی کیونکہ یہ موجودہ حکومت کا آخری بجٹ تھا اور الیکشن سے قبل ایسے اقدامات وقت کا تقاضا تھے۔
اپنے شعبے میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے اسحاق ڈارکو اس بار بجٹ تقریر میں بھی کوئی دشواری پیش نہیں آئی کیونکہ عملی معنوں میں اپوزیشن جماعت تھی نہیں تو ایوان کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی، شورشرابے اور نعرےبازی سے پاک رہا، پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان اور اپوزیشن لیڈر بھی قدرے سکون کے ساتھ اپنی نشستوں پر براجمان رہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اچھے بجٹ اور زیادہ سے زیادہ ریلیف کیلئے قوم کو صبر اور دُعاکی تلقین کی۔
بجٹ تقریر کے آغازمیں اسحاق ڈارکا ڈیسک بجا کر خیرمقدم کیا گیا، اس کے بعد وہ تقریر کرتے رہے اور حکومتی ارکان آپس میں گپ شپ یا تصویریں بنوانے میں مصروف رہے۔ کئی تو فائلیں لیے وزیراعظم اور وفاقی وزراء کی نشستوں کے پاس دکھائی دیے اور کچھ نے بجٹ دستاویزات کا مطالعہ بھی کیا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیے جانے سے قبل کابینہ بجٹ کی منظوری دیتی ہے اس کیلئے رسمی اجلاس عموماً جلد ختم ہوجاتا ہے لیکن کل ایسا نہ ہوا اور یہ اجلاس 3 گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ اس دوران منتظر میڈیا نمائندوں کو وزرات اطلاعات کی جانب سے بتایا گیا کہ وزیراعظم نے سرکاری ملازمین کا وکیل بنتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔
ایوان میں ایک اور منظربھی دیکھنے کو ملا جب اسحاق ڈار بجٹ تقریر کے دوران کئی مواقع پر منتظر رہے کہ ان کیلئے اب ڈیسک بجے کہ تب بجے لیکن ارکان کے کانوں پرجوں تک نہ رینگی۔
اسحاق ڈار کی جانب سے صنعتی شعبے پرکوئی نیا ٹیکس نہ عائد کیے جانے کے اعلان پر کچھ ڈیسک بجائے گئے جس کے بعد زرعی پیکج کے اعلان اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں ومراعات میں اضافے کی خبروں نے بھی ارکان کا دل خوش کیا اس کے علاوہ پوری بجٹ تقریر یونہی گزرگئی۔
وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر کے اختتام پر شعر پڑھا، ’تندی بادِ مُخالف سے نہ گبھرا اے عقاب ۔۔۔ یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے‘ ۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے علاوہ شاہراہ دستورپرسرکاری ملازمین کے احتجاج کے باعث ریڈ زون میں بھی گہما گہمی رہی۔