ہر برس وفاقی بجٹ کے مجموعی حجم اور بجٹ خسارے کے حوالے سے نہ صرف عوام بلکہ کئی صحافی بھی ابہام کا شکارہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب بجٹ دستاویزات میں بجٹ کا حجم کچھ اور تحریر ہوتا ہے اور قومی اسمبلی میں یا ٹی وی چینلز پراعدادشمار کچھ اوربتائے جا رہے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ بجٹ خسارے کو سمجھنے میں لوگوں کو پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔
ان الجھے سوالات کے انتہائی سادہ جوابات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں مالی سال یکم جولائی کو شروع ہو کر 30 جون کو ختم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بجٹ کے ساتھ دو عیسوی سال لکھے ہوتے ہیں۔ ایک وہ برس جس میں بجٹ پیش کیا جا رہا ہوتا ہے اور دوسرا اس کے بعد آنے والا سال۔ مثال کے طور پر جمعہ کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2023 اور 2024 کا بجٹ پیش کیا۔ یہ بجٹ سال 2023 کے آخری چھ ماہ اور سال 2024 کے پہلے چھ ماہ کا بجٹ ہے۔ عام طور پر لوگ اسے بجٹ 2023-24 لکھتے ہیں۔ لیکن اگر صرف ایک برس لکھنا ہو تو ہمیشہ آخری برس لکھا جائے گا۔ یعنی یہ سال 2024 کا بجٹ ہے۔
اردو کا ارب اور انگریزی کا بلین مساوی ہیں لیکن انگریزی کا ٹریلین اور اردو میں کھرب دو الگ الگ اعداد ہیں۔ اردو میں کھرب کا مطلب ہے ایک سو ارب۔ جبکہ انگریزی میں ٹریلین کا مطلب ہے ایک ہزار ارب۔
اس لحاظ سے رواں مالی سال کا بجٹ 14 اعشاریہ 46 ٹریلین روپے کا ہے۔ جسے اردو میں 144 کھرب 60 ارب لکھا جائے گا۔ یا پھر ابہام سے بچنے کیلئے اسے 14460 ارب روپے لکھ سکتے ہیں۔
بجٹ کا ایک سادہ مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے پاس موجود اخراجات کو کیسے اس انداز میں خرچ کرتی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں سمیت تمام اخراجات پورے ہو جائیں۔ دوسرے لفظوں میں بجٹ کا حجم حکومت کے مجموعی اخراجات ہیں۔
اصولاً تو حکومت کواپنے اخراجات آمدن کے اندر اندر رکھنا چاہییں لیکن پاکستان کے اخراجات آمدن سے بہت بڑھ چکے ہیں۔
بجٹ کے معاملے میں آمدن کا مطلب ہے ٹیکس اور نان ٹیکس محصولات۔ حکومت ملک بھر سے 9200 ارب روپے جمع کرنے کی تیاری کررہی ہے لیکن اس میں سے 5,276 صوبوں کو مل جائیں گے۔ باقی ماندہ 6,887 ارب روپے سے وفاقی حکومت کے تمام اخرجاات پورے نہیں ہو سکتے۔ لہذا اسے 7,572 روپے دیگر ذرائع سے حاصل کرنا ہوں گے۔ یعنی یا تو قرض لینا ہوگا یا کچھ بیچنا پڑے گا۔ یہ بجٹ خسارہ ہے۔
رواں برس حکومت کو نجکاری سے صرف 15 ارب روپے حاصل ہوگے۔ باقی ماندہ بجٹ خسارہ قرضوں کے ذریعے اور بانڈز کی فروخت سے پورا کیا جائے گا۔