ملک میں حزب مخالف کی متعدد جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے آج قومی اسمبلی میں 14460 ارب روپے کا مالی سال 2023-24 کا بجٹ پیش کیا۔
آج نیوز نے موصول ہونے والی بجٹ دستاویزات میں سے اخراجات اور ریونیو دونوں کا مختصر جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نصف سے زیادہ رقم قرض کی ادائیگی میں گئی ہے، یہ وفاقی حکومت کے پورے ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو سے زیادہ ہے۔
نتیجتاً پاکستان بین الاقوامی برادری سے ٹی بلز اور بانڈز کے ذریعے مزید رقم اُدھار لے گا، جبکہ سُود کی مد میں 7303 ارب روپے ادا کرے گا، جوکُل بجٹ کا 50.5 فیصد حصہ بنتا ہے۔ سال بہ سال شرح سود کی ادائیگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مالی سال کے بجٹ میں سے 1074 ارب روپے سبسڈی پر خرچ کی جائے گی۔ وفاقی حکومت تنخواہوں سمیت اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے 714 ارب روپے استعمال میں لائے گی۔
دفاعی بجٹ تین سال کے بعد اضافہ کرکے 1804 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت ترقیاتی منصوبوں کیلئے950 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو مجموعی بجٹ کا صرف 6.6 فیصد حصہ ملتا ہے، اور پنشنرز کو761 ارب روپے یا بجٹ کا 5.3 فیصد حصہ ملنا ہے۔
یہ تمام اخراجات تو ایک طرف لیکن پاکستان کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بہت قلیل رقم موجود ہے جبکہ وفاقی حکومت کی کُل آمدن 6887 ارب روپے، جوکُل اخراجات کا 47.6 فیصد بنتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے بین الاقوامی برادری سے مزید رقم قرض لے گا اور گرانٹس بھی۔ اگر بیرونی اداروں اور ممالک سے ملنے والی کا تخمینہ لگایا جائے، تو کُل رقم 2527 ارب روپے بنتی ہے، جو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
لہٰذا حکومت 3124 ارب روپے جمع کرنے اور مقامی بینکوں سے کم از کم 1906 روپے قرضہ لینے کے لیے ٹی بلز، سکوک اور دیگر بانڈز جاری کرے گی۔