وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار آئندہ مالی سال 24-2023 کا خسارے کا بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ کا مجموعی حجم 14460 ارب روپے ہے۔ تاہم اس میں سے نصف سے زائد رقم قرضوں کے سود کی ادائیگی میں جائے گی۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق خسارہ 7570 ارب روپے ہے۔
بجٹ میں ٹیکسوں کے خاتمے یا کمی کے نتیجے میں سولر سسٹم کی اشیا، ہائبرڈ گاڑیاں، ڈائپرز، ادویات کا خام مال اور دیگر کئی اشیا سستی ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب ٹریڈ مارک اور برانڈ پر فروخت ہونے والی اشیا پر ٹیکس لگا دیا گیا،
باہر کھانا کھانے والوں سے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی پر صرف 5 فیصد سیلز ٹیکس لیا جائے گا جبکہ دیگر افراد کے لیے یہ شرح 15 فیصد ہی رہے گی۔
حکومت نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا ہے۔
بجٹ اجلاس سے پہلے وفاقی کابینہ نے اپنے خصوصی اجلاس میں بجٹ 24-2023 کی منظوری دے دی، اور وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ تجاویز پر دستخط کردیئے۔ جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی صدارت میں شروع ہوا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار آئندہ مالی سال 24-2023 نے بجٹ پیش کیا، اتحادی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔
فنانس بل 2023 -24 کی تفصیلات آج نیوز نے حاصل کرلی ہیں۔
ذرائع کے مطابق بجٹ کا حجم 14 ہزار 500 ارب روپے سے زائد تجویز کیا گیا ہے، جس میں اربوں روپے کے نئے ٹیکسز بھی عائد کیے جائیں گے، وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں 9200 ارب روپے کے ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کرلیا ہے، ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 3759 ارب اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حجم 5441 ارب روپے ہے۔ بجٹ میں آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد اور بجٹ خسارے کا تخمینہ 6.54 فیصد ہے۔
نئے بجٹ میں شیئر ہولڈرز کی سالانہ 15کروڑ سے کم آمدن پر ٹیکس صفر ہوگا، تاہم شیئرہولڈرز کی 15سے 30 کروڑ آمدن پر1 فیصد، 20 سے 25 کروڑ آمدن پر 2 فیصد، 25 سے 30 کروڑ آمدن پر 3 فیصد، 30 سے 35 کروڑ آمدن پر 4 فیصد، 30 سے 35 کروڑ آمدن پر 4 فیصد، 35 سے 40 کروڑ آمدن پر 6 فیصد، 40 سے 50 کروڑ آمدن پر 8 فیصد جب کہ 50 کروڑروپے سے زائد آمدن پر 10 فیصد ٹیکس ہوگا، بونس شیئر پر بھی 10 فیصد ٹیکس دینا ہوگا، اس کے علاوہ غیر معمولی منافع کمانے والوں پر بھی اضافی ٹیکس لگے گا۔
نئے بجٹ کے مطابق اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنی کی 25 کروڑ سے زائد آمدن پر 1.25 فیصد ٹیکس ہوگا، سالانہ 25 کروڑ سے 80 کروڑ ٹرن اوور پر 20 فیصد ٹیکس ہوگا۔
بجٹ میں فارن ڈومیسٹک ورکرز پر 2 لاکھ روپے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، جب کہ بجٹ کے بعد مشروبات اور گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا امکان ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح بھی مزید بڑھائے جانے کا امکان ہے۔
بجٹ میں 50 ہزار روپے بینک ٹرانزکشن پر 0.6 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، تاہم اس میں جن افراد کا نام ٹیکس پیئر لسٹ میں موجود نہیں ان پر یہ ٹیکس لگایا جائے گا، ایک روز میں 50 ہزار روپے سے زائد کی ٹرانزکشن پر ٹیکس ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں پیٹرولیم پروڈکٹس لیوی آرڈنیننس میں بھی ترمیم کی گئی ہے، فارن ڈومیسٹک ورکرز پر 2 لاکھ روپے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، اور شیشے سے متعلق سامان پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے، اور سیور کےعلاوہ بلب پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔
بجٹ 2023 - 24 میں ٹریڈ مارک اور برانڈ پر فروخت ہونے والی کھانے پینے کی اشیاء پر اب سیلزٹیکس عائد ہوگا، باہرکھانا کھانے اور کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی پر 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا، بیرون ملک سے ملازم رکھنے والوں کو ورک پرمٹ پر 2 لاکھ ایڈجسٹ ایبل ایڈوانس ٹیکس دینا ہوگا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مزید مراعات کا ارادہ ہے، صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، ایل ایس ایم سیکٹر میں بھی بہتری آئے گی، تاحال معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد ہے، بجٹ کو الیکشن بجٹ کے بجائے ذمہ دارانہ بنایا ہے، زرعی قرضوں کی حد 2250 ارب روپے کی جا رہی ہے۔
کابینہ نے نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک 30 فیصد اضافے کی منظوری دے دی ہے۔
بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 کی تنخواہ میں 35 فیصد، گریڈ 17 سے 22 کے لیے 30 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے، اور پینشن میں 17 اعشاریہ 5 فیصد اضافہ کی منظوری دی گئی ہے، پنشن پر 654 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ جب کہ کم سے کم تنخواہ 30 ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق سرکاری ملازمین کے ڈیوٹی سٹیشن سے باہر سرکاری سفر، رات کے قیام کے ڈیلی الاؤنس، معالج الاؤنس میں اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔
بجٹ میں سولر انورٹرز کے پارٹس پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، اس کے علاوہ کنٹرول بورڈ، پاور بورڈ اور چارج کنٹرولر، اے سی ان پٹ اور آؤٹ پٹ ٹرمینل، اور زرعی بیجوں پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، بجلی کی پیداوار اور ترسیل پر بھی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔
بجٹ میں ڈائپرز اور سینیٹری نیپکن پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے، مائننگ مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹی ایک فیصد کردی گئی ہے، ہابرڈ وہیکلز کے پرزہ جات کی درآمد پرڈیوٹی 4 فیصد کردی گئی ہے، ایشین میک 1300 سی سی گاڑیوں کی امپورٹ کی فکسڈ ڈیوٹی کی پابندی واپس لے لی گئی ہے۔
آئندہ بجٹ میں ضروی اشیاء کی درآمدات پر ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، قرآن کی چھپائی کے لیے آرٹ کارڈ اور بورڈ ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنی کیا گیا ہے۔
بجٹ میں فارما کمپنیز کے لیے سہولت دی گئی ہے اور فارما کمپنیز کے لیے مزید 3 ڈرگز ڈیوٹی فری ریجیم میں شامل کی گئی ہے۔
بجٹ میں ڈائپرز اور سینیٹری نیپکنز پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، جب کہ سولر پینلز کے لیے استعمال اشیاء اور مشینری پر کسٹمز ڈیوٹی نہیں ہوگی، انورٹرز اور بیٹریز پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔
بجٹ میں آئی ٹی کے ایکسپورٹرز کے لیے بھی بجٹ میں سہولت دی گئی ہے، آئی ٹی سے متعلق سامان پر کوئی امپورٹ ڈیوٹی نہیں ہوگی، مانیٹرز اور پروجیکٹرز پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔
آئی ٹی سیکٹر پر انکم ٹیکس کی شرح سال 2026 تک برقرار رہے گی، فری لانسر کی 24 ہزار ڈالر سالانہ آمدن پر ٹیکس سے چھوٹ ہوگی، وینچر کیپٹل فنڈ کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، آئی ٹی سیکٹرپر 15 فیصد سیلز ٹیکس کم کر کے 5 فیصد کردیا گیا ہے، اور آئندہ سال 50 ہزار آئی ٹی گریجویٹس تیار کئے جائیں گے۔
بجٹ کے مطابق چھوٹے کاروبار کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں، ایس ایم ایز کےلئے 6 فیصد مارک اپ پر 20 فیصد رسک حکومت برداشت کرے گی، ایس ایم ایز کے لئے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔
بجٹ کے مطابق ایک لاکھ افراد کو لیپ ٹاپ دیئے جائیں گے، جب کہ خواتین کو خود مختار کرنے کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں، اور کاروباری خواتین کے لئے ٹیکس کی شرح میں چھوٹ دی جائے گی۔
بجٹ میں آئندہ 3 سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی آمدنی پر 10 فیصد رعایت دی جائے گی، اور اس کا اطلاق یکم جولائی اور بعد میں شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔
بجٹ میں کپیسیٹرز مینوفیکچررز کے لیے بھی کسٹم ڈیوٹی میں رعایت دی گئی ہے، جب کہ کھانے میں استعمال ہونے والے پاؤڈر کی امپورٹ پر جون 2024 تک رعایت دی گئی ہے، مولڈ اور ڈائس میں استعمال سامان پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جبکہ رائس مل مشینیری کے لیے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کی گئی ہے، مشینیوں کے ٹولز کی درآمد پر بھی کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں ہوگی۔
بجٹ میں اسپورٹس کے پرانے سامان کی امپورٹ پر بھی ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے، فلیٹ پینلز پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے اور سلیکون اسٹیل شیٹس پر بھی کوئی ریولیٹری ڈیوٹی نہیں ہوگی۔
بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے بھی بجٹ میں سہولت دی گئی ہے، تجارتی سہولتوں اور پیداواری لاگت میں کمی پر توجہ دی گئی ہے اور سرمایہ کاری اور انڈسٹرلائزیشن کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔
بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مراعات کا اعلان کیا ہے، اور ہیوی کمرشل وہیکلز پر کسٹم ڈیوٹی 10سے کم کر کے 5 فیصد کردی گئی ہے۔ ہر قسم کے بیج کی درآمد کسٹم ڈیوٹی سے مستثنی ہوگی، جھینگے اور چھوٹی مچھلی کی امپورٹ پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جبکہ 75 کلو واٹس سے کم زرعی ٹریکٹرز کی درآمد پر ڈیوٹی 15 فیصد کردی گئی ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اس حوالے سے بتایا کہ زرعی شعبے کے لئے2000 سے زائد کسان پیکیج دیا، بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مزید مراعات کا ارادہ ہے، صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، جب کہ زرعی قرضوں کی حد 2250ارب روپے کی جا رہی ہے۔
بجٹ میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، معیاری بیجوں کی درآمد پر ڈیوٹیز ختم کردی گئی ہیں چاول کی پیداوار بڑھانے کےلئے بیج کو ڈیوٹیز سے مستثنی کردیا گیا ہے، رائس ملز اور مائننگ مشینری کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنی دے دیا گیا ہے۔
بجٹ میں بزنس ایگری کلچر لون اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے، جس کے لئے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، چھوٹے کسانوں کو کم منافع پر قرضہ دیا جائے گا، اور انہیں 10 ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے۔
بجٹ کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے اگر پراپرٹی خریدیں گے تو ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ 2023-24 میں لنڈے سمیت پرانی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، جوتوں پر 13 سینٹ، لیدر جیکٹس پر امپورٹ ڈیوٹی 28 سینٹ فی کلو ہے۔ ہینڈ بیگز پر 49 سینٹ، کھلونوں پر47 اور برتن وغیرہ پر50 سینٹ فی کلو درآمدی ڈیوٹی الگ سے وصول کی جارہی تھی۔
بجٹ اجلاس سے پہلے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں بجٹ 24-2023 کی منظوری دی گئی، اور وزیراعظم شہبازشریف نے بجٹ تجاویز پر دستخط کیے، جس کے بعد وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔
قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس تاخیر کا شکار ہوا، بجٹ اجلاس 4 بجے شروع ہونا تھا جو تاخیر کے بعد تقریباً 6 بجے شروع ہوا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی بجٹ دستاویزات پیش کیا۔ سینیٹ اجلاس میں بجٹ، سفارشات کے لیے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوایا جائے گا، لیکن بجٹ کے حوالے سے حکومت سینیٹ سفارشات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوتی۔