ملک کا مجموعی قومی قرضہ 54 ہزار ارب تک پہنچ چکا ہے اور نئے بجٹ میں قرضوں کی واپسی کا ٹارگٹ پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
2013 میں ملک کا مجموعی قومی قرضہ 13 ہزار ارب تھا، لیکن صرف 10 سال میں یہ رقم 41 ہزار ارب روپے بڑھی اور اب ملک کا مجموعی قومی قرض 54 ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے۔
قرض کی اتنی خطیر رقم کی واپسی حکومت کے لئے درد سر بن چکی ہے اور قابل ادائیگی قرضے میں سود کا حجم تاریخی طور پر بڑھ کر 8 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے، اور گردشی قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ 54 ہزار ارب کے مجموعی قرض میں سے گردشی قرض 2800 ارب سے بھی بڑھ گیا ہے، نئے بجٹ میں قرضوں کی واپسی کا ٹارگٹ پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے، اور آئندہ مالی سال 14 فیصد قرض ہی ادا کیا جاسکے گا۔
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق خسارے 40 فیصد بڑھنے پر ادائیگیوں کا حجم کم ہوتا رہا، اور ادائیگی میں بار بار تاخیر کے باعث سود کی رقم 8 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکی ہے، تاہم حکومت مشکلات کے باوجود پاور سیکٹرز سمیت دیگر اداروں اور قوم کو قرض کے دلدل سے نکالنے کے لئے پرامید ہے۔
دوسری جانب پارلیمنٹرین نے اس ہدف کو ناممکن قرار دیا ہے، اور گردشی قرضوں کے خاتمے کیلٸے بلا تاخیر مہنگے درآمدی تیل پر چلنے والے پلانٹس پر انحصار ختم کرکے سستے اور قابل تجدید تواناٸی کے ذراٸع پر توجہ دینے کی تجویز دی ہے۔
اس حوالے سے سیینیٹر بہرہ مند تنگی کا کہنا ہے کہ گردشی سمیت دیگر قرضوں کے اصل اسباب کے تدارک کی طرف سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی گٸی۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی عبدالکبر چترانی نے کہا ہے کہ آٸی ایم ایف سے نجات ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے متنبہ کیا کہ آٸی پی پیز چلتے رہے تو ملکی قرضے بڑھتے رہیں گے۔