نیشنل کرائم ایجنسی190ملین پاؤنڈ اسکینڈل میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آج نیب راولپنڈی کی کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو پیش ہوئے، نیب کی ٹیم نے 4 گھنٹے سے زائد تفتیش کی اور تحریری سوالنامہ بھی دیا گیا جبکہ نیب نے بشریٰ بی بی کو بطور گواہ 13 جون کوطلب کرلیا۔
سابق وزیراعظم عمران کان آج عدالتوں میں پیشی کے بعد نیب راولپنڈی میں نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں کمبائنڈ انویسٹیگیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔
ذرائع کے مطابق نیب ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی سے رقم منتقلی اورکابینہ سے منظوری دینے کے حوالے سے سوالات کیے، القادرٹرسٹ کی زمین لینے سے متعلق بھی سوالات کیے گئے۔
کمبائنڈ انویسٹیگیشن ٹیم نے عمران خان کو تحریری سوالنامہ بھی دیا، ٹیم نے سابق وزیراعظم سے 4 گھنٹے سے زائد تفتیش کی۔
عمران خان کے تحریری جواب کو نیب نے غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف کو دوبارہ نوٹس بھیجتے ہوئے 7 جون کو طلب کیا تھا۔
اس کے جواب میں عمران خان نے 8 جون کو پیش ہونے کی استدعا کی۔
نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں تفتیش مکمل ہونے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف لاہور زمان پارک کے لیے روانہ ہوگئے۔
دوسری جانب نیب نے بشری بی بی کو نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بطور گواہ 13 کو بیان قلمبند کروانے کے لیے طلب کرلیا۔
اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کی 8 مقدمات میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔
عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان صفدر اور بیرسٹر گوہرعدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے چئیرمین پی ٹیہ آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ شامل تفتیش ہوئے؟
وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ایک کیس ختم کرتا ہے، مزید تین مقدمات بن جاتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگر آپ نے تفتیش جوائن کی ہوتی تو آج ہی آٹھ کیسز کو سن لیتے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ تیاری کےساتھ آیاہوں، کہتے ہیں تو میں دلائل دے دیتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے شامل تفتیش ہونے کو تیار ہیں۔
عدالت نے کہا کہ چار تفتیشی افسر موجود ہیں، ان کی حد تک تو معاملہ نمٹا لیتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی اور تفتیشی افسر بیان دے دیں کہ کتنے بجے شامل تفتیش ہونا ہے۔
اے ٹی سی جج راجا جواد عباس نے ریماکس دئیے کہ جے آئی ٹی لاہور بیٹھتی ہے، اسلام آباد میں موجود نہیں۔
سلمان صفدر نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کو شامل تفتیش کرلیں، فیصلہ کل کے لیے محفوظ کرلیں۔
جس پر جج نے کہا کہ پولیس لائینز جوڈیشل کمپلیکس سے دس منٹ کی دوری پر ہے، آپ واپس جاتے ہوئے پولیس لائنز میں جا کر شاملِ تفتیش ہوجائیں۔
وکیل نعیم پنجوتھا نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس بہترین جگہ ہے شاملِ تفتیش ہونے کے لیے، سیکیورٹی خدشات کے باعث پولیس لائینز میں شاملِ تفتیش ہونا ممکن نہیں۔
اے ٹی سی جج نے استفسار کیا کہ تحریری جواب ریکارڈ پر کیوں نہیں لے رہے؟ کیس لگا ہوا ہے، جے آئی ٹی کو عدالت آنا نہیں چاہئے کیا؟
جس پر پراسیکیورٹر عدنان علی نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شامل تفتیش ہونا نہیں چاہتے۔
اے ٹی سی جج نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی آرہے ہیں، جے آئی ٹی موجود نہیں، آپ کہہ رہے شامل تفتیش نہیں ہونا چاہ رہے، جے آئی ٹی کو بلا لیتے ہیں۔
وکیل گوہر علی نے کہا کہ 150 سے زائد مقدمات درج ہیں، ایک ساتھ کیسے شاملِ تفتیش ہوں۔
اے ٹی سی جج نے کہا کہ کیا عدالت نے کہا ہے فلاں جگہ شامل تفتیش ہوجائیں؟
وکیل گوہرعلی خان نے کہا کہ عدالت نے نہیں کہا مخصوص جگہ ہی شامل تفتیش ہونا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سابق وزیراعظم ہیں، جان کو خطرہ ہے۔
اےٹی سی جج نے کہا کہ قتل کے ملزم آتے ہیں، زندگی تو سب کی اہم ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے آنے پر حکومت کے لاکھوں روپے لگتے ہیں، چند دن قبل رات 10 بجے تک چیئرمین پی ٹی آئی کو بٹھائے رکھا تھا۔
وکیل گوہرعلی خان نے کہا کہ کمرہ عدالت میں ہی شاملِ تفتیش ہونے کو تیار ہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن کا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنا ہے۔
جج نے کہا کہ جے آئی ٹی کا جواب اب تک ہمارے پاس موجود نہیں۔
اے ٹی سی جج نے چیرمین پی ٹی آئی کے آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔