وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے معیشت میں گراوٹ رک جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہاکہ جب حکومت ملی توجی ڈی پی گروتھ 6 فیصد تھی، آئی ایم ایف پروگرام کے لیے بہت بھاری سیاسی قیمت اداکی، ڈالر اصل قیمت سے 40 روپے سے لے کر 45 روپے تک مہنگا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کے ہمراہ قومی اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے نے کہا کہ کچھ ماہ اور حکومت نہ سنبھالتے تو معلوم نہیں پاکستان کہاں ہوتا، اقتدار سنبھالا تو حالات خراب تھے، گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے معیشت 47 نمبر پر آگئی۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت پچھلے ایک سال سے ذمہ داری نبھا رہی ہے، 5 ڈرائیونگ ایریاز کے حوالے سے روڈ میپ تیار کیا ہے، حکومت نے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا، میکرو اکنامک استحکام حکومت کا وژن ہے، 24 سے47 ویں معیشت تک جانے میں بہت سارے محرکات ہیں، اب معیشت میں گراوٹ رک چکی ہے، اندرونی اور بیرونی طورپرایک بات ہورہی تھی پاکستان ڈیفالٹ کررہا ہے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ گزشتہ دورمیں کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ بڑھ گیا، 4 سال میں گردشی قرضہ 1148 ارب سےبڑھ کر 2467 ارب تک پہنچا، ریونیو کا زیادہ حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، پالیسی ریٹ بڑھنے سے قرضوں کا حجم آسمان پر چلا گیا، موجودہ حکومت کومشکل عالمی حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان نے بہت بڑاالمیہ دیکھا، سیلاب سے پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا، متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کا کام جاری ہے، مسلم لیگ نون کی قیادت میں ایک ہی پروگرام ختم ہوا، ہم نے بہت بڑی پولیٹیکل کاسٹ ادا کی ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ سیلاب سے جی ڈی پی کو 15.2 ارب ڈالر نقصان ہوا، 14.9 ارب ڈالر کے دیگر نقصانات بھی شامل ہیں، جنیوا کانفرنس میں بہت اچھا رسپانس ملا۔
وزیرخزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے بہت بھاری سیاسی قیمت ادا کی، پاکستان کے لیے بہت مشکل فیصلے کیے گئے، پاکستان کی ساکھ ختم ہو چکی تھی، دعا ہے 9 واں اقتصادی جائزہ جلد مکمل ہو، کوشش ہوگی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جتنا اضافہ ہو سکا، کریں گے، آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں سے 70 کروڑ ڈالر ملنا باقی ہیں، ہمیں بہت تکلیف دہ کام بھی کرنے پڑے۔
انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی 0.29 فیصد رہی پے، آئندہ ہدف 3.5 فیصد ہے، مہنگائی 29.2 فیصد رہی، رواں مالی سال جولائی تا نومبر مہنگائی کی اوسط شرح 18 فیصد رہی، اس میں شہری اور دیہی علاقوں میں کور انفلیشن کو مدنظر رکھ کر اوسط شرح نکالی جائے۔
وزیرخزانہ نے بتایا کہ ایف بی آر کی ریونیو کلیکشن گروتھ 16.1 فیصد رہی، ایف بی آر نے رواں مالی سال میں 6210 ارب روپے جمع کیے اور اب ٹیکس نیٹ کو مزید وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 76 فیصد بہتری آئی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوکر 3.3 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا ہے، جولائی تا مئی میں درآمدات 72.3 ارب ڈالر سے کم ہو کر52.2 ارب ڈالر ہوگئی ہیں، تاریخ شہباز شریف کی حکومت کو یاد رکھے گی، سیاست پر ریاست کو ترجیح دی۔
ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدرمیں کمی اور پالیسی ریٹ سے منفی اثرات مرتب ہوئے، 11 ماہ میں 6 ہزار 210 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں سال کم ہو کر 3.3 ارب ڈالر پر آ گیا، یہ حقیقت پسندانہ اعداد و شمار ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اتنا بڑا تجارتی خسارہ کبھی نہیں ہوا، 31 ارب ڈالر کا کلائمیٹ ڈیزاسٹر تھا، ترقیاتی بجٹ کو ہم نے دگنا کیا ہے، پسے ہوئے طبقے کے لئے جو ہوسکے گا کریں گے، شاہد خاقان عباسی کو روپے کی بے قدری سے روکا، حکومت کو کریڈٹ جائے گا کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ڈالر کی حقیقی قیمت 240 روپے ہے، ہم نے 3 ہفتوں میں 35 روپے ڈیزل کم کیا، پیٹرول 20 روپے اور مٹی کا تیل 12روپے لیٹر سستا کیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اعتراف کیا کہ اس سال معیشت کو کئی حادثات کا سامنا کرنا پڑا، میڈیا پر دیکھا تمام اہداف حاصل نہ ہوسکے، 50 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا، 84 ارب ڈالر کی درآمدات زرمبادلہ کے ذخائر اڑاگئیں، ایسا تاثر ملتا ہے جیسے یہ نارمل سال تھا۔
رواں مالی سال 2022-23 کے دوران ملکی برآمدات مخصوص ممالک تک محدود رہیں جبکہ پاکستانی درآمدات بھی مخصوص منڈیوں تک محدود رہیں۔
اقتصادی سروے 2022-23 کے اعداد و شمار کے مطابق ملکی برآمدات امریکا، چین، افغانستان، یو اے ای، اٹلی، اسپین تک محدود رہیں، سالانہ بنیادوں پر چین، افغانستان، جرمنی، متحدہ عرب امارات کو برآمدات میں کمی ہوئی، امریکا، برطانیہ، اٹلی اور اسپین کو پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوا، پاکستانی درآمدات بھی مخصوص منڈیوں تک محدود رہا، پاکستان اپنی کل درآمدات کا 50 فیصد 4 ممالک سے درآمد کرتا ہے۔
دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب، کویت، انڈونیشیا سے درآمدات میں اضافہ ہوا ہے، سالانہ بنیادوں پر چین سے درآمدات میں 21 فیصد کی کمی ہوئِی ہے۔
اکنامک سروے کے مطابق ڈومیسٹک سیکٹر سے پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں 45.36 فیصد کمی ہوئی، انڈسٹری کی جانب سے 13.27 فیصد، زرعی شعبے کی کھپت میں 24.01 فیصد کمی ہوئی۔
ٹرانسپورٹ سیکٹر کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت 19.82 فیصد گرگئی، پاور سیکٹر کی پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت 41.66 فیصد کم رہی جبکہ سرکاری اداروں کی پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت 5.30 فیصد کم ہوئی۔
دوسری جانب وزیرِاعظم شہباز شریف سے وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں معاشی ٹیم نے ملاقات کی۔
معاشی ٹیم نے وزیرِ اعظم کو اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کیا۔
وزیرِ اعظم نے معاشی ٹیم کی گزشتہ ایک برس میں ملکی معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے کوششوں کو سراہا۔
شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے چھوڑے گئے معاشی چیلنجز اور تاریخی سیلاب کے باوجود معاشی ٹیم کی ملکی معیشت کے لیے خدنات قابلِ ستائش ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ بجٹ میں حکومت زرعی شعبے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدت پر خطیر سرمایہ کاری کرے گی، چھوٹے کسانوں کو اعلی معیار کا بیج اور خود کار زرعی مشینری سے لیس کیا جائے گا۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ آئندہ بجٹ میں چھوٹے کسانوں کے لیے بلاسود قرضوں کے پروگرام میں توسیع کی جائے، فی ایکڑ ذیادہ پیداوار حاصل کرنے والے کسانوں کو حکومت انعام سے بھی نوازے گی۔
قومی اقتصادی سروے میں جاری مالی سال کے دوران اہم سماجی و اقتصادی اہداف اور مختلف شعبوں میں پیشرفت کی تفصیلات شامل ہوں گی۔
اقتصادی سروے میں زراعت، مینوفیکچرنگ ، صنعت، خدمات، توانائی،انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن، کیپٹیل مارکیٹس، صحت ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور مواصلات سمیت مختلف شعبوں میں پیشرفت اوراقتصادی رجحانات کا احاطہ کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں قومی اقتصادی سروے میں افراط زر ، تجارت ، قرضوں کی ادائیگی، آبادی ، روزگار، ماحولیاتی تبدیلیوں اور سماجی تحفظ کے شعبہ جات میں حکومتی اقدامات اور رجحانات کا بھی تفصیل سے احاطہ کیا جائے گا۔
سروے کے مطابق حکومت مقررہ معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال سیلاب جیسے قدرتی آفات کا سامنا رہا۔ سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی گروتھ 0.3 تک ریکارڈ ہوئی، روس یوکرین جنگ سے عالمی سطح پر کموڈیٹی پرائس میں اضافہ ریکارڈ ہوا۔
کموڈیٹی پرائس میں اضافے سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
رواں مالی سال جولائی سےمارچ مہنگائی کی شرح 29 فیصد تک ریکارڈ ہوئی، رواں مالی سال جی ڈی پی کا حجم 84 ہزار 600 ارب سے زائد ریکارڈ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: شوگر ڈرنک پر ایکسائز ڈیوٹی میں 50 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کی سفارش
واضح رہے کہ اندرونی اوربیرونی چیلنجوں کے باوجود معیشت میں استحکام اور پائیدارنمو کیلئے حکومت کی جانب سے مرتب کردہ پالیسیوں اورحکمت عملی سے اقتصادی نمو اور سپلائی چین میں بہتری آرہی ہے۔
موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں 76 فیصد کی نمایاں کمی ہوئی، جبکہ دوسری جانب ایف بی آر کے محاصل میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
حکومتی اقدامات سے ملک کے تجارتی خسارہ میں بھی نمایاں کمی ہوئی۔ زری اورمالی استحکام کیلئے مرتب کردہ پالیسیوں کی وجہ سے معیشت پائیدار راہ پرگامزن ہے۔
خریف کی فصلوں سے زرعی سرگرمیوں اور پیداوار میں مزید اضافہ ہوگا، جس سے مجموعی اقتصادی نمو پراثرات مرتب ہوں گے۔
حکومت نے خساروں پر قابو پانے کے لئے حکمت عملی مرتب کی، جس کی وجہ سے مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارے میں سالانہ بنیادوں پر76.1 فیصدکی نمایاں کمی ہوئی۔