جناح ہاؤس حملہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل سماعت کیلئے مقرر کرلی گئی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شہباز رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ اپیل پر سماعت کرے گا۔
درخواست میں ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کے برعکس یاسمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا، یاسمین راشد نے جناح ہاؤس پر حملہ کرنے والوں کی ریلی کی قیادت کی،تمام ثبوتوں کے باوجود یاسمین راشد کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا گیا۔
گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ میں جناح ہاؤس جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے سے یاسمین راشد کی بریت کو حکومت پنجاب نے چیلنج کیا تھا۔
حکومت پنجاب نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے توسط سے اپیل دائر کی تھی، جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے جناح ہاؤس پر حملے کی ہدایات دیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ یاسمین راشد پی ٹی آئی ورکرز کو جناح ہاؤس تک لے کر گئیں، ملزمہ کےخلاف ٹھوس شواہد اور موقع کے گواہان موجود ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت یاسمین راشد کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔
چند روز قبل پنجاب پولیس نے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی رہائی کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ہفتہ کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کو کور کمانڈر لاہور کی رائش گاہ (جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے) میں توڑ پھوڑ سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کو بری کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کی گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں رینجرز کی جانب سے بدعنوانی کے مقدمے میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے، اس دوران فوجی تنصیبات سمیت کئی نجی اور سرکاری املاک کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یاسمین راشد کو پی ٹی آئی کی 17 دیگر خواتین کارکنوں کے ساتھ ابتدائی طور پر مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس (ایم پی او) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور 13 مئی کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ان کی رہائی کا حکم دئیے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔
یاسمین راشد پر 9 مئی کے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے سے متعلق لاہور میں درج تین مقدمات میں بھی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
تاہم، طبی حالت کے پیش نظر پولیس نے اس وقت انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، جہاں سے انہیں کوٹ لکھپت جیل سے لے جایا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے انسداد دہشتگردی عدالت نے جناح ہاؤس توڑ پھوڑ کیس میں فوٹو گرافی ٹیسٹ کے لیے یاسمین راشد کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ دیا تھا اور وہ تب سے پولیس کی تحویل میں ہیں۔
ایک روز قبل لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے یاسمین راشد کی 23 دیگر ملزمان کے ساتھ رہائی کا حکم دیا تھا اور انہیں کیس سے بری کر دیا تھا۔ 9 مئی کے احتجاج سے متعلق دیگر مقدمات کی وجہ سے انہیں رہا نہیں کیا گیا۔
تاہم، ایک بیان میں پنجاب پولیس نے کہا ہے کہ ”ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت 9 مئی کے واقعے کے تمام سازشی، منصوبہ ساز اور مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔“
بیان میں کہا گیا کہ جناح ہاؤس حملہ کیس کی تحقیقات سائنسی خطوط پر کی جارہی ہیں۔
پنجاب پولیس کا یہ بیان یاسمین راشد کی بریت کے حوالے سے عمران خان کے ٹوئٹ کے جواب میں جاری کیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ”عدالتی حکم کو چیلنج کیا جائے گا، کیونکہ پولیس کو کیس میں فرانزک ثبوت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ عدالت (اے ٹی سی) کے حکم کو ہائیکورٹ کے حکم کے بعد حتمی شکل دی جائے گی۔“
پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ ”پولیس کیس کی تحقیقات اور عوام کے سامنے سچ لانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔“
پولیس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”اس مرحلے پر کوئی بھی قبل از وقت مفروضہ یا اندازہ گمراہ کن ہونے کا امکان ہے۔“
سرور روڈ پولیس نے جمعہ کو ڈاکٹر رشید اور دیگر کو لاہور انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) میں پیش کیا تھا۔
تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ یاسمین راشد کا فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ، وائس میچ کرانے اور ان کا موبائل فون برآمد کرنے کے لیے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
یاسمین راشد کی جانب سے ایڈووکیٹ رانا مدثر عمر نے ریمانڈ کی مخالفت کی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے پاس ان کے مؤکل کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یاسمین راشد ایک عمر رسیدہ خاتون ہیں جن کو صحت کے متعدد مسائل ہیں اور پولیس کی تحویل میں ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
جج عبہر گل خان نے ریمارکس دیئے کہ کیس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ راشد کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ ضمنی بیانات کے ذریعے ملوث تھیں۔
جج نے نوٹ کیا کہ خاتون رہنما کو ایک شریک ملزم کے انکشاف کی بنیاد پر کیس میں طلب کیا گیا تھا، جس کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔
جج نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ یاسمین راشد کو کسی اور کیس میں مطلوب نہ ہونے کی صورت میں فوری رہا کیا جائے۔
تاہم پی ٹی آئی رہنما کو رہا نہیں کیا گیا کیونکہ وہ شادمان تھانے پر حملہ اور شیر پاؤ پل پر تشدد سمیت دو دیگر مقدمات میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو مزید بتایا کہ جناح ہاؤس حملہ کیس میں 126 ملزمان شناخت پریڈ کے عمل سے گزرے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شناخت پریڈ میں 23 مشتبہ افراد کو قصوروار نہیں پایا گیا، اس لیے انہیں کیس میں بری کیا جا سکتا ہے۔
جج نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کے 23 ملزمان کو بری کر دیا تھا۔