پاکستان تحریک انصاف کیخلاف 9 مئی کے واقعات کے بعد جو کریک ڈاؤن شروع ہوا وہ نقطہ عروج پر پہنچنے کے بعد ہفتہ کو بظاہر ٹوٹتا محسوس ہوا۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد کو کور کمانڈر حملہ کیس سے بری الذمہ قرار دے دیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں جج کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کے اس حملے سے تعلق کے شواہد نہیں لہذا ان کام نام مقدمے سے نکالا جا رہا ہے۔
یہ فیصلہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد پر مظاہرین کی قیادت کرتے ہوئے انہیں کور کمانڈر ہاؤس تک لے جانے کا الزام ہے۔ اس حوالے سے ان کی ایک آڈیو بھی سامنے آچکی ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ یاسمین راشد مظاہرین کو کور کمانڈر کے گھر جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے میں داخل نہ ہونے کا کہتی رہی۔
سوشل میڈیا پر جاری بحث سے ظاہر ہوتا ہے عدالتی فیصلہ کئی لوگوں کے باعث حیرت تھا جب کہ مسلم لیگ (نواز) کے کارکنوں کے لیے پریشانی کا سبب۔
ابھی یہ حیرت کم نہیں ہوئی تھی کہ گوجرنوالہ کی عدالت نے پی ٹی آئی کے صدر پرویز الہی کو کرپشن کے دو مقدمات سے بری کردیا۔ ایک روز قبل لاہور کی ایک عدالت نے بھی پرویز الہی کو کرپشن کے مقدمے سے بری کردیا تھا۔
دونوں کو رہائی نہیں ملی۔ یاسمین راشد پر دیگر مقدمات ہیں جب کہ پرویز الہی کو رہائی کے فوراً بعد پھر گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے باوجود ان رہنماؤں کے حق میں فیصلے آنا ایک اہم پیشرفت ہے۔
یاسمین راشد کور کمانڈر حملہ کیس میں بری، پرویز الہٰی کیخلاف کرپشن کے مزید 2 مقدمات ختم
عدالتوں میں ہونے والے ان فیصلوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایک تبدیلی دکھائی دی۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا سرگرمیاں جو پچھلے دنوں میں کم ہوگئی تھیں اچانک تیز ہوگئیں۔
سیاسی میدان میں جہاں جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور سابق وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس کے ساتھ بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے دکھائی دیئے وہیں لاہور میں پی ٹی آئی کے سابق ٹکٹ ہولڈرز کا ایک اجلاس بھی ہوا جس کے روح رواں ہاشم ڈوگر اور مراد راس تھے۔
جہانگیر ترین اور تنویر الیاس دونوں ہی صاحب وسائل شخصیات ہیں اور ماضی میں پی ٹی آئی کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔
نئی سیاسی صف بندی، جہانگیر ترین اور سابقین پی ٹی آئی کے الگ الگ اجلاس
ہاشم ڈوگر کا کہنا ہے کہ وہ پی ڈی ایم یا ن لیگ کے ساتھ ہرگز ہاتھ نہیں ملائیں گے، پی ٹی آئی کے سابقہ دوستوں کا الگ گروپ ملکر آئندہ انتخابات میں حصہ لے گا۔
پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں کی سرگرمیاں بظاہر مائنس عمران خان ایک نئی پارٹی کی جانب بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔
لیکن ان تمام معاملات کا تعلق پاکستان سے باہر کی صورت حال سے بھی جڑا ہے۔
ایک برس قبل امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرانے والی پی ٹی آئی اب کھل کر امریکہ سے مدد مانگ رہی ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ واشنگٹن پاکستان کے سیاسی حالات پر بیان جاری کرے۔پاکستان میں آسٹریلوی سفیر نے چند روز قبل رات گئے زمان پارک میں پی ٹی آئی چیئرمین سے ملاقات کی تھی۔ آسٹریلوی پارلیمنٹ میں بھی پی ٹی آئی کا معاملہ ایک سے زائد مرتبہ اٹھایا جا چکا ہے۔
برطانوی جریدے اکنامسٹ نے رواں ہفتے ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیاکہ عمران خان فوج سے جنگ ہار گئے ہیں لیکن ساتھ ہی پاکستان کے اداروں کو بھی لتاڑنے کی کوشش کی گئی۔ ایک اور برطانوی اخبار گارڈین نے اپنی اشاعت میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما پر تشدد کا ذکر کیا۔ رہنما کا نام شائع نہیں کیا گیا۔
پاکستان سے مذاکرات کرنیوالے آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر بھی پاکستان کے سیاسی حالات پر تبصرہ کر چکے ہیں۔ ان کے بیان کو وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔
اس تناظر میں سابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی صف بندی اور عدلیہ کے فیصلے بظاہر یہ پیغام دیتے محسوس ہوتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی گنجائش موجود ہے اور پاکستان سے باہر جو تشویش ظاہر کی جا رہی ہے اس کے برعکس یہاں عدالتیں آزاد ہیں، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی نہیں اور سوشل میڈیا پر لوگ اپنی بات کہہ رہے ہیں۔
کیا اس میں پی ٹی آئی کے لیے رعایت ہے؟
ہوسکتا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ کونسی پی ٹی آئی۔