سوات سنگوٹہ پبلک اسکول میں گاڑی پر فائرنگ کرنے والے پولیس اہلکار نے عدالت میں اعتراف جرم کرلیا۔
سوات میں 16 مئی کو پولیس اسٹیشن منگلور کی حدود میں واقع سنگوٹہ اسکول میں پولیس اہلکار کی فائرنگ سے ایک بچی جاں بحق اور ٹیچر سمیت سات طالبات زخمی ہوگئی تھیں۔
گاڑی پر فائرنگ کرنے والے گرفتار پولیس اہلکار عالم خان نے عدالت میں اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ فائرنگ کے وقت ذہن میں شیطان گھس گیا تھا۔ پولیس اہلکار نے ملزم پر ابتدائی طور پر 320 ، 324 اور 427 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اسکول میں فائرنگ کرنے والے اہلکار کے بارے میں ابتدائی طور تاثر دیا جارہا تھا کہ وہ ذہنی مریض ہے تاہم اب ملزم نے عدالت کے سامنے اعتراف جرم کرلیا ہے۔
سوات سنگوٹہ پبلک اسکول میں گاڑی پر فائرنگ کے دوران جاں بحق چھ سالہ عائشہ کی بہن اریشا نے چند روز قبل آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا تھا کہ میرے سامنے بہن پر گولی چلائی گئی۔
اریشا نے بتایا، ’ہم نے دوسرے چوکیدار کو کہا کہ گیٹ کھول دیں۔ جب گیٹ کھل گیا اور آدھی گاڑی باہر نکلی، تو پولیس اہلکار نے پہلے ہماری گاڑی کے ٹائر پر فائرنگ کی اور پھر گاڑی کے پیچھے والے حصے پر فائرنگ کھول دی، جس میں کچھ بچیاں آگے اور کچھ پیچھے زخمی ہوگئیں۔ ٹیچرز کے پاؤں زخمی ہوگئے اور ہماری دوست بچیاں بھی مختلف جگہ پر زخمی ہوگئیں۔‘
اریشا نے کہا کہ میری بہن کے سر میں گولی لگی جس سے وہ جاں بحق ہوگئی۔ میری خالہ زاد بہن کی ناک اور مجھے خود چہرے پر زخم آئے۔ میری بہن کو لگنے والی گولی مجھ پر بھی لگی۔ اس کے باوجود ہم اپنی پڑھائی جاری رکھیں گے۔
فائرنگ میں جاں بحق عائشہ کے چچا حیات خان بھی فائرنگ کے واقعہ کے بعد تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔
عائشہ کے چچا حیات خان نے کہا تھا کہ ہمیں ان سے انصاف کی توقع نہیں، یہ ایک اہم کیس ہے کیونکہ فائرنگ کسی دہشت گرد نے نہیں بلکہ سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکار نے کی۔
انہوں نے کہا کہ اب لوگ پولیس سے بھی خوف محسوس کررہے ہیں، جو ایک تشویش ناک بات ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ اس کیس میں متاثرہ خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے اور ان کو انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ورنہ لوگ ان سے بھی نفرت کریں گے۔
فائرنگ کے واقعہ کے ایک ہفتے بعد سوات کا سنگوٹہ پبلک اسکول دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔ اسکول کھولنے کے موقع پر ڈی پی او سوات شفیع اللہ گنڈا پور کا کہنا تھا کہ اسکول کی سیکیورٹی کے لیے 22 پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے، تمام اہلکاروں کی چھان بین شروع کردی گئی ہے۔
سنگوٹہ پبلک اسکول فائرنگ پر مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سمیت بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے سخت تٖشویش کا اظہار کیا تھا۔