اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کے بھائی مراد اکبر کی بازیابی کی درخواست پر سیکرٹری داخلہ ،ڈی جی رینجرز اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا.
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کی ذاتی ویڈیوبنا بنا کراپلوڈ کردیتے ہیں لیکن چوراورڈاکووں کونہیں پکڑتے اگریہ لوگ نہ آئے تو اگلی تاریخ پروزیرداخلہ کوبلاؤں گا، پھر بھی نہ آئے تو وزیراعظم کوطلب کروں گا، 36 کلومیٹرکے ایریا میں اگرامن وامان کا یہ عالم رہا توآپ لوگ پھراپنے گھرچلے جائیں۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے مراد اکبرکی بازیابی کیلئے دائردرخواست پرسماعت کی، انہوں نے ڈی آئی جی آپریشنزکو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جولوگ آئے وہ سی ٹی ڈی کے اورنہ ہی رینجرکے تھے یہ کون لوگ تھے۔
ڈی آئی جی نے شناخت کیلئے مہلت کی استدعا کی جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگرگاڑیاں اورافراد کا تعین ہوگیا تواس کے نتائج ہوں گے، اتنے لوگ سی ٹی ڈی اور رینجر کی وردی میں آئیں گے تو یہ باعث شرمندگی ہے ۔ کروڑوں روپے سیف سٹی پرلگ گئے لوگوں کی ذاتی ویڈیوبنا بنا کراپلوڈ کردیتے ہیں لیکن چوراورڈاکووں کونہیں پکڑتے کہاں ہیں، ڈی جی رینجرز اوروزارت دفاع سے کون آیا؟۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ڈی جی رینجرزکوشوکازنوٹس جاری کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہاکہ اسلام آباد کے اندراتنے لوگوں نے مل کرایک بندے کواٹھایا، پولیس ،رینجراورسی ٹی ڈی کی وردی میں لوگ آکر بندہ لے گئے، اگر ان کی وردی استعمال ہورہی ہے تو وہ ذمہ دار ہیں. جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے کہ کیا وہ جعلی لوگ تھے،پولیس اور رینجرز کی وردی میں چوریاں ہورہی ہیں ،آپ نے پرچہ کیوں نہیں درج کیا؟۔
عدالت نے سیکرٹری داخلہ ،ڈی جی رینجرزاورآئی جی اسلام آباد کو پیر کے روز ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اپنی اپنی ایف آئی آر بھی لے کر آئیں، اپنے اپنے ادارے کی وردی کو انہوں نےخود بچانا ہے۔
کیس کی آئندہ سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔