چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اورسپریم کورٹ ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹ ایکٹ کی شقوں میں مماثلت پر کہنا ہے کہ قوانین میں ہم آہنگی کیلئے پارلیمنٹ کو دیکھنے کا کہہ سکتے ہیں۔ حکومت کو قانون سازی پر سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیئے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں ترامیم کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواستوں پر سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
مسلم لیگ (ق) نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا، جس میں ایکٹ کے خلاف داٸر درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی گئی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے گزشتہ روز بطور فریق سپریم کورٹ میں جواب جمع کرواتے ہوئے استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کو غیرآئینی قرار دیا جائے۔
اٹارنی جنرل نے دورانِ سماعت کہا کہ ہمارے دو قوانین ہیں، ایک سپریم کورٹ ریویو آف آرڈر اینڈ ججمنٹ ایکٹ ہے، دوسرا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دونوں قوانین میں ریویو اور وکیل کرنے کی شقوں میں مماثلت ہے۔
جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ خوشی ہے پارلیمنٹ مماثلت والے قوانین میں ترمیم کر رہی ہے، حکومت کو قانون سازی پر سپریم کورٹ سے مشاورت کرنی چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ زیادہ وسیع ہے، اس میں سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات سے متعلق شقیں ہیں، دونوں قوانین میں سے کس پر انحصار کرنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلےکے کسی ایک حل پر پہنچنا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ میں کہا کہ قوانین میں ہم آہنگی کیلئے پارلیمنٹ کو دیکھنے کا کہہ سکتے ہیں، آپ کی اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں، تب تک کسی اور کو سن لیتے ہیں۔
اس دوراند رخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی کارروائی طلب کی تھی۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خبارات کے مطابق پارلیمنٹ نے کارروائی فراہم کرنے سے انکارکیا، پارلیمنٹ کو شاید معلوم نہیں تمام کارروائی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگلے ہفتے اس کیس کو سنیں گے۔
چیف جسٹس نے کراچی سے آنے والوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں موسم خوشگوار ہے، امید ہے سب انجوائے کریں گے۔
چیف جسٹس نےاٹارنی جنرل کے بیان کوخوش آئند قراردیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی مشاورت سے قانون سازی کریں تو تنازعات نہیں ہوں گے، عدلیہ کے حوالے سے یک طرفہ قانون سازی نہیں ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے حوالے سے ہدایات نہیں دے سکتے، ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت غلطیاں درست کرے اور کیس چلتا رہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قانون بنتے رہیں ہم سماعت کرتے رہیں، دیکھتے ہیں کون تیز ہے۔
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت آج کی کاررواٸی کا مناسب حکم جاری کرے گی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں ترامیم کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواستوں میں اس قانون کی شق 2،3،4،5،7 اور 8 کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہے، جس سے عدلیہ کے اندرونی انتظامی امورمیں مداخلت کی گئی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی کا ریکارڈ طلب کررکھا ہے تاہم اسپیکر قومی اسمبلی میں منظورکی جانے والی قرارداد کے تحت اس بات کے پابند ہیں کہ یہ ریکارڈ سپریم کورٹ کو نہ دیا جائے۔