سپری کورٹ میں مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت شروع ہوتے ہی ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ کا حصہ ہیں۔
مزید پڑھیں: آڈیو لیکس کمیشن پر حکومتی اعتراض، تینوں ججز سے علیحدہ ہونے کی درخواست
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے اعتراض پر مشتمل درخواست کو ڈائری نمبرلگانے کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئندہ ہفتے اٹارنی جنرل کی درخواست پر سماعت کریں گے، ہمارے پاس کچھ اور درخوستیں بھی آئی ہیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کی درخواست فائل نہیں ہوئی، آپ کی درخواست پرنمبر لگانےکا کہہ رہے ہیں۔ آپ تمام فریقین کو اپنی درخواست کی کاپیاں فراہم کریں۔
درخواست گزار حنیف راہی نے عدالت میں استدعا کی کہ میری ایک درخواست ہے، اس کو سنا جائے، اور ساتھ میں ایک توہین عدالت کی درخواست بھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس کچھ اور درخواستیں آئی ہیں، جن کو رجسٹر کرنے کا حکم دے دیا ہے، پہلے اٹارنی جنرل کی درخواست دائرکی ہے وہ سنیں گے، درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل نے اگر کوئی جواب دیا ہے، انکوائری کمیشن نے لکھا کہ ٹاک شوز میں ہم بات کرتے ہیں، آپ یہ تحریری طورپر دیں، اس کو سنیں گے، سماعت کی تاریخ ہم بعد میں دیں گے۔
عدالت نے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔
کیس کی سماعت سے قبل آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے حوالے سے سیکرٹری کمیشن نے رپورٹ جمع کرادی ہے، جب کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں بنائے گئے انکوائری کمیشن کا مختصر بیان بھی جمع کرایا گیا ہے، جس میں لارجر بینچ پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے.
آڈیو لیکس کے انکوائری کمیشن نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ درخواستوں کوآرٹیکل184/3کےتحت سن رہی ہے، اس بینچ کیلئے درخواستوں کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا، کیوں کہ صدر سپریم کورٹ بارعابد زبیری کی اپنی آڈیو منظرعام پر آئی ہے، تو وہ کیسے مفاد کا معاملہ اٹھا سکتے ہیں۔
انکوائری کمیشن نے مؤقف دیا ہے کہ انکوائری کمیشن کو معاملہ میں کوئی دلچسپی نہیں، انکوائری کے دوران آنے والے اعتراضات کو زیرغور لایا جائے گا، نئے قانون کے بعد بینچ کی تشکیل 3 رکنی کمیٹی کا اختیارہے، انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں کو کمیٹی کے تعین تک سنا جائے۔
انکوائری کمیشن نے اپنے جواب میں یہ بھی نقطہ اٹھایا کہ جسٹس منیب اختر کا ایک آڈیو میں ذکر ہے، ایک آڈیو میں چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، ججز کا حلف آئین و قانون کی پاسداری کی بات کرتا ہے، کمیشن کو ابتک درخواستوں کی نقول فراہم نہیں کی گئیں۔
یاد رہے کہ 26 مئی کو سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کو کام کرنے سے روکتے ہوئے کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں: مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات: انکوائری کمیشن نے مزید کارروائی روک دی
گزشتہ روز وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن پر سپریم کورٹ کے بینچ کے خلاف درخواست دائر کی۔
درخواست میں میں بینچ میں شامل تینوں ججز پر اعتراض کرتے ہوئے نیا بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر آڈیو لیک کا مقدمہ نہ سنیں، تینوں معزز ججز 5 رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیں، 26 مئی کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پر اٹھے اعتراض کو پذیرائی نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
مزید پڑھیں: صدر سپریم کورٹ بار نے آڈیو لیکس کمیشن کا طلبی نوٹس چیلنج کردیا
جوڈیشل کمیشن کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر نے درخواست دائر کر رکھی ہیں۔
عمران خان نے ایڈووکیٹ بابراعوان کے توسط سے دائر آئینی درخواست میں استدعا کی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن کالعدم قراردیا جائے۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس نے آڈیو لیک کمیشن کیخلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دیدیا
سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے بھی آڈیو لیکس کمیشن کی جانب سے طلبی کا نوٹس چینلج کرتے ہوئے درخواست میں وفاق، آڈیو لیکس کمیشن، پیمرا اور پی ٹی اے کو فریق بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن آئین کی خلاف ورزی ہے۔
عابد زبیری نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ کسی بھی شہری کی جاسوسی یافون ٹیپنگ نہیں کی جاسکتی، آڈیو لیک کمیشن کا نوٹیفکیشن آرٹیکل 9، 14،18، 19، 25 کی خلاف ورزی ہے، کمیشن کی تشکیل، احکامات اور کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔
تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر وفاقی حکومت انکوائری کمیشن کو مبینہ آڈیوز کے ساتھ ٹرانسکرپٹ بھی مجاز افسر کے دستخط سے جمع کرواچکی ہے۔ مجموعی طور پر8 آڈیوز جمع کرائی گئی ہیں جن میں افراد کے نام،عہدے اور دستیاب رابطہ نمبرز کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل آفس نے جن 8 مبینہ آڈیوز سے متعلق ناموں کی فہرست تیارکی ہے اس میں نام سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہیٰ کا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، موجودہ چیف جسٹس کی خوشدامن ماہ جیبیں نون، صحافی عبدالقیوم صدیقی، پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے جمشید چیمہ، وکیل خواجہ طارق رحیم اور ان کی اہلیہ رافیہ طارق کا نام بھی ہے۔
اس کے علاوہ فہرست میں صدر سپریم کورٹ بارعابد زبیری، سابق چیف جسٹس کے بیٹے نجم ثاقب اور ابو ذر مقصود چدھڑ کے مطابق علاوہ سپریم کورٹ کے ایک حاضرسروس جج کا نام بھی شامل ہے۔
حکومت نے 20 مئی8 کو ججز کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے سینئر رین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کررہے ہیں، دیگر 2 ارکان میں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اخترافغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق شامل ہیں۔
اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج اور ایک وکیل کے ساتھ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا۔
موجودہ چیف جسٹس، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائیکورٹ کے داماد سمیت آڈیو لیکس کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا قانون کے مطابق احتساب کرنے کا بھی فیصلہ کرے گا۔ کمیشن یہ بھی دیکھے گا کہ کونسی ایجنسی ذمے داروں کا احتساب کرسکتی ہے۔