وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تفصیلات عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ شیئر کرے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اپنا 9 واں جائزہ بجٹ سے پہلے کلیئر کر دے، جو آئندہ ماہ جون کے شروعات میں پیش کیا جانا ہے کیونکہ اس کے لیے تمام شرائط پہلے ہی پوری ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی 350 بلین ڈالر کی فنڈنگ جنوبی ایشیائی ملک کے لیے انتہائی اہم ہے جس کی ادائیگیوں کے لئے شدید بحران کا سامنا ہے اور اسی وجہ نے ڈیفالٹ کے خدشات کو جنم دیا ہے جسے وزیر خزانہ مسترد کرچکے ہیں۔
مرکزی بینک کے غیرملکی ذخائر کم ہوچکے ہیں کہ بمشکل ایک ماہ کی کنٹرول شدہ درآمدات کو پورا کرسکے جبکہ 2022-2023 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 0.29 فیصد کے ساتھ پاکستان کی معیشت سست روی کا شکار ہے۔
اسحاق ڈار نے نجی ٹی وی کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کچھ چیزیں مانگی گئیں ہیں جس کی ہم تفصیلات دینے کو تیار ہیں وہ بجٹ کی تفصیلات مانگتے ہیں ہم وہ بھی دینے کو تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایم ایف بیل آؤٹ کا 9 ویں اور10ویں جائزے ایک ساتھ کرتا ہے تو یہ پاکستان کیلئے کام نہیں کرے گا، ہم اسے بطور ایک غیرمنصفانہ اقدام دیکھتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب کے پاکستان کو1.1 بلین ڈالر کی فنڈنگ 2019 میں طے شدہ 6.5 بلین ڈالر کے توسیعی فنڈ کا حصہ ہے جو نومبر سے رُکی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے 9ویں جائزے کی منظوری کیلئے فروری میں آئی ایم ایف مشن سے مالیاتی پالیسی اقدامات سے متعلق بات چیت کی گئی تھی۔
پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے مطالبے کے مطابق کافی اقدامات اٹھانے پڑے، جن میں سبسڈی ختم کرنا، توانائی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، کلیدی پالیسی ریٹ میں اضافہ، مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ، بیرونی فنانسنگ کا انتظام اور نئے ٹیکسوں میں 170 ارب روپے (613 ملین ڈالر) سے زائد کا اضافہ شامل ہے۔
مالیاتی ایڈجسٹمنٹ پہلے ہی پاکستان میں اب تک کی بلند ترین افراط زر کو جنم دے چکی ہے، جو اپریل میں 36.5 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔