Aaj Logo

اپ ڈیٹ 29 مئ 2023 12:23pm

2019 کے بعد دنیا میں بھوک پھر بڑھنے لگی، پاکستانیوں سمیت 80 کروڑ افراد شکار

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے کہا کہ تقریباً 828 ملین افراد یعنی دنیا کی آبادی کے 10 فیصد افراد ہررات کو بھوکے سوتے ہیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 46 ملین زیادہ ہے۔

بھوک سے متاثر ہونے والوں میں سے دو تہائی تعداد خواتین کی ہے جبکہ 80 فیصد ایسے علاقوں میں رہتی ہیں جہاں موسمیاتی تبدیل کے باعث خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔

بھوک ایک ایسی حالت ہے جب انسان طویل وقت تک بنیادی خوارک سے محروم رہتا ہے جس کی وجہ سے صحت کے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے خصوصی طور پر بچے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔

اس سے قبل بھوک میں کمی کا رجحان برقرار تھا لیکن حالیہ برسوں میں اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے اور 2019 اور2021 کے درمیان غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد میں 150 ملین سے زیادہ کا اضافہ ہوا، جو بنیادی طور پر تنازعات، موسمیاتی تبدیلی، خراب معیشت اورعالمی وبا کورونا کی وجہ سے ہوا ہے۔

اس کےعلاوہ فوڈ پرائس انڈیکس جو روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء کی پیمائش کرتا ہے اس کے مطابق 2019 اور 2022 کے درمیان خوراک کی قیمت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، جو95.1 پوائنٹس سے بڑھ کر 143.7 پوائنٹس ہوگیا ہے۔

فوڈ پرائس انڈیک کے ٹریڈ اینڈ مارکیٹس ڈویژن میں ماہر معاشیات مونیکا توتھووا کا کہنا ہے کہ جب عالمی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ملکی سطح پراضافہ مختلف ہوتا ہے کیونکہ ہرملک مختلف پالیسیاں اپناتا ہے۔

مونیکا توتھووکا کہنا ہے کہ کئی ممالک ایسے ہیں جو اپنی عوام کو مختلف مصنوعات میں سبسڈی فراہم کرتے ہیں۔

غذائی قلت کا شکار کونسے ممالک ہیں؟ اقوام متحدہ کا انکشاف

اقوام متحدہ کی اسٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ نے حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ دنیا میں زیادہ ترغذائی قلت کا شکار آبادی براعظم ایشیا میں رہتی ہے جہاں2021 میں تقریباً 425 ملین لوگ بھوک سے ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ بھوک کا پھیلاؤ افریقہ میں سب سے زیادہ ہے، جہاں 278 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔

خوراک کے بحران پرعالمی رپورٹ کے 2023 ایڈیشن کے مطابق بھوک کا شکار وہ افراد ہیں جن کے پاس اپنی بھوک مٹانے کے مناسب مقدار میں غذا بھی موجود نہیں ہے جس کی وجہ ان کی صحت اور روزگار بھی متاثر ہوتا ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران بھوک و افلاس میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ 2022 میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا تھا جو اناج، کھاد پیدا کرنے والے دو سب سے بڑے ملک ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سپلائی چینز میں رکاوٹیں پیدا کیں جس کی وجہ سے اناج، کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے غذائی قلت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

Read Comments