ورجینیا عدالتی سماعت کی صبح ٹھنڈے ہاتھ پاؤں کے ساتھ ہانپتی ہوئی اٹھی اور گہری سانسیں لینے لگی، اسے ایک بار پھر گھبراہٹ کا دورہ پڑا تھا۔
چھیالیس سالہ فلپائنی خاتون نے عرب خبر رساں ادارے الجزیرہ کو بتایا کہ “میں نے اپنی زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں خود کو ایک غیر ملک کے کمرہ عدالت میں وکلاء کا سامنا کرتے پاؤں گئی۔ “
ورجینیا نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں موجود پاکستانی مشن کے سفارت کاروں کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے اور الزام اعئد کیا ہے کہ وہ 20 سال سے زائد عرصے سے بلا معاوضہ کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے 1999 میں ملازمت کے جس معاہدے پر دستخط کئے تھے اس میں ہفتے میں 40 گھنٹے کام اور 1,200 سوئس فرانک (1,329 ڈالرز) ماہانہ تنخواہ درج تھی، اس کے علاوہ سفر اور رہائش کے ساتھ ساتھ ہیلتھ انشورنس بھی موجود تھا۔
ورجینیا، جو اُس وقت دو بچوں کی 22 سالہ ماں تھی، انہیں جنیوا پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ ان سے پاکستانی سفارتی مشن کے لیے ہفتے میں تین بار بغیر تنخواہ کام لیا جائے گا۔ ساتھ ہی انہیں اپنے اخراجات اور زندگی گزارنے کیلئے کافی رقم کیلئے بھی خود ہی کوئی دوسری ملازمت تلاش کرنی ہوگی۔
ویزا اسپانسر نے ورجینیا سے حکم کی تعمیل اور خاموشی کا مطالبہ کیا، جبکہ ان کے آجروں کو سفارتی استثنا حاصل ہے۔
ورجینیا کا کہنا ہے کہ ”وہ بہت طاقتور ہیں، انہیں کوئی چھو نہیں سکتا، خدا پر میرا یقین اور سچائی ان کے استثنا کے خلاف میرا واحد ہتھیار ہیں۔“
ورجینیا اور تین دیگر فلپائنی گھریلو ملازماؤں نے سوئٹزرلینڈ میں موجود اقوام متحدہ کے پاکستانی مشن کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں غیر ادا شدہ اجرت اور دیگر نقصانات کے معاوضے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
2021 سے جمع کیے گئے شواہد اور گواہی سوئس لیبر قانون کی خلاف ورزیوں، دھمکیوں، جبر، استحصال اور انسانی اسمگلنگ کے الزامات کی تائید کرتے ہیں۔
سفارتی گھرانوں میں گھریلو ملازمین کیلئے ویزا پرمٹ جاری کرنے کی نگرانی کرنے اور ملازمین کے معاہدوں کی تعمیل پر نظر رکھنے والے سوئس مشن نے تصدیق کی ہے کہ اس کیس کی فی الحال تفتیش کی جا رہی ہے۔
سوئس مشن نے تنازع کے حل ہونے تک پاکستانی مشن کے تحت کام کرنے والے گھریلو ملازمین کے لیے ویزوں کا اجرا روک دیا ہے۔
اس حوالے سے سوئس مشن کی ترجمان پاؤلا سیرسیٹی کہتی ہیں کہ ”سوئٹزرلینڈ سفارتی تناظر میں نجی گھریلو ملازمین کے حالات کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کو برداشت نہیں کرتا“۔
الجزیرہ کو لکھی گئی ایک ای میل میں، جنیوا میں پاکستانی مشن نے بتایا کہ وہ زیر التواء معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے، لیکن یہ بھی کہا، ”مشن قابل اطلاق بین الاقوامی قانون اور مقامی ضوابط کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ یہ اپنے حقوق کی بھی پیروی کرتا ہے، جس میں دستیاب میکانزم کے ذریعے انتشار کے خلاف اپنے دفاع کا حق بھی شامل ہے۔“
سوئس مشن کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 سے 2022 تک افریقہ، جنوبی امریکہ، ایشیا اور دیگر ممالک سے تارکین وطن گھریلو ملازمین کو 102 ویزے جاری کیے گئے۔
ویانا کنونشن کے تحت، ریاستی سفیروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ملازمین کو فراہم کردہ سفارتی استثنا انہیں مجرمانہ یا دیوانی مقدمات سے تحفظ دے کر، غیر ملکی حکومتوں سے انتقام کے خوف کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دینے کی اجازت دیتا ہے۔
اوپن سورس کورٹ دستاویزات، نیوز رپورٹس اور این جی اوز کی کیس فائلوں سے 1996 سے 2020 تک سفارت کاروں اور بین الاقوامی اداروں کے ملازمین کے گھریلو ملازمین کے استحصال اور اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے 140 سے زیادہ واقعات کا انکشاف ہوا ہے۔
الزامات میں دھمکیاں اور جبر سے لے کر جسمانی، نفسیاتی اور جنسی استحصال کے ساتھ ساتھ کم اجرت یا بالکل ادا نہ کرنا شامل ہے۔
تقریباً تمام متاثرین ترقی پذیر ممالک کی خواتین تھیں۔
اگر مقدمات درج کیے جاتے تو سفارتی استثنا کی وجہ سے انہیں عموماً خارج کر دیا جاتا تھا۔
ایسے مقدمات جن میں متاثرہ کو معاوضہ دیا جانا تھا عام طور پر اس لیے نافذالعمل نہیں ہوپاتا تھا کیونکہ سفارت کار ملک چھوڑ چکا تھا یا کسی دوسرے سفارت خانے میں منتقل ہو گیا تھا۔
وانپیپرسٹریٹ کہتے ہیں کہ ”کسی سفارت کار کو منظوری دینے یا ان کے گھریلو ملازمین کے حالات کی نگرانی کے لیے کلاسک لیبر رائٹس ٹولز کا استعمال تقریباً ناممکن ہے۔“
2022 میں برطانیہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سفارتی گھرانوں میں گھریلو ملازمت ایک تجارتی سرگرمی ہے اور اسے استثنا سے تحفظ حاصل نہیں ہے۔
یہ کیس گھریلو ملازمہ جوزفین وونگ کی جانب سے سعودی سفارت کار خالد بسفر کے خلاف دائر کیا گیا تھا، اور اسے دنیا کا پہلا کیس قرار دیا گیا تھا۔
ملازمین کے رہائشی اجازت نامے کی نوعیت ان کے آجر سے منسلک ہے، جو بطور کفیل کام کرتا ہے، اور یہ گھریلو ملازمین کی نازک صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔
انتہائی غیر معمولی معاملات میں، ایک سفارت کار کا میزبان ملک استثنا سے دستبرداری کی درخواست کرسکتا ہے۔
2007 میں، امریکہ میں تین ہندوستانی خواتین نے کویتی سفارت کار ولید الصالح اور ان کی اہلیہ مایسا العمر پر اسمگلنگ، جبری مشقت اور جسمانی استحصال کا الزام لگایا، جس میں ایک خاتون کا سر دیوار سے مارنا بھی شامل ہے۔
امریکہ نے کویت سے سفارتی استثنا ختم کرنے کی درخواست کی۔ جب کویت نے انکار کیا تو الصالح کو امریکہ بدر کردیا گیا اور مبینہ طور پر انہیں ملک میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
جنیوا میں چار فلپائنی گھریلو ملازمین کے معاملے میں، سوئس مشن نے کہا کہ استثنا کی چھوٹ ان اقدامات میں سے ایک ہے جس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، لیکن اس نے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا تاکہ کارروائی کو جاری رکھنے میں تعصب نہ ہو۔
وینپیپرسٹریٹ کہتے ہیں کہ اکثر گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ”سفیر کو کسی دوسرے ملک بھیج دیا جاتا ہے یا وہ اپنے آبائی ملک واپس چلا جاتا ہے۔“
عدالت سے باہر مقدمات اکثر ورک ٹربیونلز یا ثالثی اداروں کو بھیجے جاتے ہیں جو سفارتی مراعات سے مستفید ہونے والے ملازمین اور آجروں کے درمیان تنازعات پر بات چیت کرتے ہیں۔
جنیوا میں مقیم بیورو ڈی ایمی ایبل کمپوزیٹر (بی اے سی) کی چیئرپرسن مارٹین برنش وِگ گراف کے مطابق، 1995 سے 2022 تک، بی اے سی کی مداخلت کے نتیجے میں ملازمین کو آجروں کی طرف سے کی جانے والی ادائیگیاں اوسطاً 128,000 سوئس فرانک (145,000 ڈالرز) سالانہ ہیں۔
“ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مزدور کو پوری رقم ادا کی گئی ہو جو واجب الادا ہو۔