سپریم وکرٹ آف پاکستان نے تین رکنی آڈیو لیکس کی تحقیقاتی کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجربینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور دیگر کی درخواستوں پرمحفوظ فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن معطل کردیا اور اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ کمیشن میں ججز کی شمولیت کے لیے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری تھی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کے لیے بھی مشاورت ضروری ہوتی ہے۔
سیریم کورٹ نے درخواستوں پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے تمام درخواستوں میں فریقین کو نوٹسز ارسال کردیئے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی نوٹس جاری کردیا جب کہ مزید سماعت 31 مئی تک ملتوی کردی۔
درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے آڈیو لیک کی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کو آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
اس سے قبل چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے اختیارات ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی میں عجلت میں کی گئی، حکومت اگر ہم سے مشورہ کرتی تو ہم کوئی بہترراستہ دکھاتے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ حکومت ججزمیں اختلاف پیدا کررہی ہے، وہ کیسے ججز کو اپنے مقاصد کے لئے منتخب کرسکتی ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، دیگر ارکان مین جسٹس منیب اختر، اعجاز الااحسن، شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہررضوی شامل ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوتے ہی اٹارنی جنرل عثمان منصور نے روسٹرم پر آکر لارجر بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ میں بینچ سے الگ ہو جاؤں؟ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے، آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی، حکومت کیسے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے؟ آپ کی درخواست قابلِ احترام ہے، چیف جسٹس کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے، مجھے معلوم تھا کہ آپ یہ اعتراض اٹھائیں گے، عدلیہ وفاقی حکومت کے ماتحت نہیں، آئین میں اختیارات کی تقسیم ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر کیسے اقدام کیا گیا؟ انکوائری کمیشن ایکٹ 1956ء میں بھی مشاورت کا نہیں تھا، یہ ایک پریکٹس ہے، کمیشن کے لیے جج چیف جسٹس نامزد کرے گا، ایسے 3 نوٹیفکیشن واپس لیے گئے جن میں چیف جسٹس کی مشاورت شامل نہ تھی، سپریم کورٹ کے اس حوالے سے 5 فیصلے بھی موجود ہیں، براہِ مہربانی حکومت سے کہیں کہ آئین پراس کی روح کے مطابق چلے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017ء میں مشاورت کا نہیں کہا گیا، جانے انجانے میں ججوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی، حکومت نے کمیشن میں ضمانت اور فیملی میٹرز کو بھی ڈال دیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ یہ معاملہ حل ہو سکتا ہے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہے تو جائیں اسے حل کریں، پھر ہم بھی آپ کی مدد کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون کے کیس سمیت دیگر میں فل کورٹ کی درخواست کی۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ میں قانون میں لکھا ہے کہ 5 ججز کا بینچ ہو، آپ کی فل کورٹ کی درخواست تو اس قانون کے بھی خلاف تھی، ہم نے 8 ججوں کا بینچ بنایا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ قانون 5 ججز کے بینچ کا کہتا تھا تو 5 جج کیوں نہیں تھے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ الیکشن کے کیس میں جیسے آپ کو بتایا اگر ہم سے مشورہ کرتے تو آپ کی مدد کرتے، آئین کا احترام کریں، ہمارے بغیر پوچھے عدلیہ کے امورمیں مداخلت کریں گے تو۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل محترم! آپ کا اور آپ کی مؤکل وفاقی حکومت کا احترام کرتے ہیں، اداروں کا احترام کریں اس میں عدلیہ بھی شامل ہے، 9 مئی کے واقعات کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی، وفاقی حکومت چیزیں آئین کے مطابق حل کر دے تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل پر برہم ہوتے ہوئے کہا کہ اگر جھگڑنا ہے تو پھراٹارنی جنرل تیاری کرکے آئیں۔
سپریم کورٹ میں عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فون ٹیپنگ بذاتِ خود غیر آئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے؟ حکومت تاثر دے رہی ہے کہ فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے، حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بینظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں، کس جج نے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی اس کا تعین کون کرے گا؟
عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے، جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے، آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ کمیشن نےپورے پاکستان کونوٹس کیا کہ جس کے پاس جوموادہےوہ جمع کراسکتاہے، کسی قانونی طریقہ کارپرعمل نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے رہمارکس دیے کہ اس کمیشن کاقیام آرٹیکل 209کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کوبھیجاجاسکتاہے۔ بظاہرحکومت نےججزکےخلاف مواداکٹھاکرکےمس کنڈکٹ کیا۔ حکومت یا پیمرا نے آڈیو چلانے سے روکنے کی ہدایت نہیں کی۔
شعیب شاہین نے کہا کہ پیمرا نے اس پرکوئی کارروائی نہیں کی حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی بازپرس نہیں کی۔ اس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا کی حد تک عدالت سے متفق ہوں،۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت نےاختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی، لگتاہےانکوائری کمیشن نےہرکام جلدی میں کیا ہے، ججز اپنی مرضی سے کیسے کیمشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔ میٹھےالفاظ استعمال کر کے کوردینےکی کوشش کی گئی اور بظاہراختیارات کی تقسیم کےآئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے آڈیولیکس انکوائری کمیشن پرسماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت نے کہا کہ کیس کا مختصرحکم نامہ جاری کریں گے۔
گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر نے درخواست دائر کر رکھی ہیں۔
عمران خان نے ایڈووکیٹ بابراعوان کے توسط سے دائر آئینی درخواست میں استدعا کی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن کالعدم قراردیا جائے۔
سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے بھی آڈیو لیکس کمیشن کی جانب سے طلبی کا نوٹس چینلج کرتے ہوئے درخواست میں وفاق، آڈیو لیکس کمیشن، پیمرا اور پی ٹی اے کو فریق بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن آئین کی خلاف ورزی ہے۔
عابد زبیری نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ کسی بھی شہری کی جاسوسی یافون ٹیپنگ نہیں کی جاسکتی، آڈیو لیک کمیشن کا نوٹیفکیشن آرٹیکل 9، 14،18، 19، 25 کی خلاف ورزی ہے، کمیشن کی تشکیل، احکامات اور کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔
تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر وفاقی حکومت انکوائری کمیشن کو مبینہ آڈیوز کے ساتھ ٹرانسکرپٹ بھی مجاز افسر کے دستخط سے جمع کرواچکی ہے۔ مجموعی طور پر8 آڈیوز جمع کرائی گئی ہیں جن میں افراد کے نام،عہدے اور دستیاب رابطہ نمبرز کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل آفس نے جن 8 مبینہ آڈیوز سے متعلق ناموں کی فہرست تیارکی ہے اس میں نام سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہیٰ کا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، موجودہ چیف جسٹس کی خوشدامن ماہ جیبیں نون، صحافی عبدالقیوم صدیقی، پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے جمشید چیمہ، وکیل خواجہ طارق رحیم اور ان کی اہلیہ رافیہ طارق کا نام بھی ہے۔
اس کے علاوہ فہرست میں صدر سپریم کورٹ بارعابد زبیری، سابق چیف جسٹس کے بیٹے نجم ثاقب اور ابو ذر مقصود چدھڑ کے مطابق علاوہ سپریم کورٹ کے ایک حاضرسروس جج کا نام بھی شامل ہے۔
حکومت نے 20 مئی8 کو ججز کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے سینئر رین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کررہے ہیں، دیگر 2 ارکان میں چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اخترافغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق شامل ہیں۔
اس حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج اور ایک وکیل کے ساتھ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا۔
موجودہ چیف جسٹس، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائیکورٹ کے داماد سمیت آڈیو لیکس کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا قانون کے مطابق احتساب کرنے کا بھی فیصلہ کرے گا۔ کمیشن یہ بھی دیکھے گا کہ کونسی ایجنسی ذمے داروں کا احتساب کرسکتی ہے۔