رہنما پاکستابن تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سینیٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ اُمید ہے مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کے لئے قائم جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان کی آڈیو کو وقعت نہیں دے گا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے علی ظفر نے کہا کہ بہت سارے آڈیو لیک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ کال پر بات کرنے سے ڈر رہے ہیں، لہٰذا آڈیو لیک پر کمیشن خوش آئیند ہے لیکن یہ کمیشن مزید بہتر ہوسکتا تھا، اچھا ہوتا پتہ چل جاتا کہ فون ٹیپنگ کس نے کی۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی آڈیو اگر اصل بھی ہوئی تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں، اسی لئے امید ہے کمیشن چیف جسٹس کی آڈیو کو وقعت نہیں دے گا، البتہ ریفرنس صرف مس کنڈکٹ پر ہی بھیجا جاسکتا ہے۔
آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی جوڈیشل کمیشن سے متعلق بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے ہر جج صاحب برابر ہیں چاہے وہ ہمارے حق یا خلاف فیصلہ کریں لیکن سٹنگ جج کو کمیشن میں شامل کرنے سے پہلے چیف جسٹس کو آگاہ کیا جاتا ہے۔
آرمی ایکٹ کے تحت کارروائیوں کے حوالے سے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جلاؤ گھیراؤ سے حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف ایکشن لینا چاہئے جس کے لئے عام قانون اور عدالتیں موجود ہیں لیکن اگر ملزم کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہوتی ہے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے علی ظفر نے کہا کہ آئین سب کو پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن توڑ پھوڑ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں، اگر ہنگامہ آرائی میں لیڈرشپ بھی ملوث ہے تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے اور اس سے قبل مکمل ہونا تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے قومی اسمبلی سے استعفے ملک میں بیک وقت انتخابات کے لئے دیئے تھے لیکن اسپیکر اسمبلی نے انہیں منظور کرنے سے انکار کردیا تھا اور پھر اچانک سے تمام استعفے منظور کرلیئے تھے جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے سے ڈائیلاگ کا دروازہ کھولا، لہٰذا امید ہے راجہ پرویز اشرف عدالتی فیصلے میں مداخلت نہیں کریں گے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے آرٹیکل 245 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے سے متعلق سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ سیاسی جماعت کا حق ہے، اب دیکھنا ہے عدالت اس پر کیا فیصلہ دیتی ہے، سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کا فیصلہ ہونا ہے، ہماری پٹیشن کا انحصار سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہوگا۔