لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی جانے سے ڈر رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے 19 مئی کو تحریک انصاف کے 72 اراکین قومی اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا، تاہم تحریک انصاف کے اراکین کی اسمبلی واپسی کے فیصلے سے متعلق صورتحال تاحال واضح نہیں ہوسکی۔
لاہورہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے 72 ارکان کو اسپیکر قومی اسمبلی سے رابطے کا حکم دے رکھا ہے، تاہم تحریک انصاف نے اپنے اراکین کو اسمبلی جانے کے حوالے سے کوئی ہدایت جاری نہیں کیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اکثر اراکین پر گرفتاری کا خوف طاری ہے اور وہ قومی اسمبلی جانے سے گریز کررہے ہیں، اور نامعلوم مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں، جب کہ بیشتر اراکین سے رابطوں کا فقدان ہے کیوں کہ ان کے فون نمبر ہی بند ہیں۔
ذرائع کے مطابق اراکین کی قومی اسمبلی نہ جانے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاہ محمود، ملیکہ بخاری اور عامر ڈوگر سمیت کچھ اراکین تاحال زیرحراست یا جیلوں میں قید ہیں، جب کہ حالیہ دنوں میں عامر کیانی اور امین اسلم سمیت کچھ اراکین اپنی جماعت کو ہی خیر آباد کہہ چکے ہیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر راجا پرویز اشرف نے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے، اور جن پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور ہوچکے ہیں وہی فیصلہ حتمی ہے۔
قومی اسمبلی حکام کا موقف ہے کہ لاہور ہائی کورٹ یا الیکشن کمیشن نے کسی رکن کو بحال نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے صرف ضمنی انتخابات کا اپنا نوٹیفیکیشن معطل کیا ہے، عدالت نے بھی اسپیکر کے استعفے منظور کرنے کے فیصلے کو معطل نہیں کیا۔
ذرائع قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی کسی بھی تحریک انصاف رکن کی رکنیت بحال نہیں کی، تحریک انصاف عدالتی فیصلے کی اپنی مرضی سے تشریح کررہی ہے۔
ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت مشاورتی اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اسپیکر کا پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے استعفے قبول کرنے کا فیصلہ بھی حتمی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اہم مشاورتی اجلاس میں کہا گیا کہ اسپیکر استعفوں کو قبول کرنے کے معاملے پر رولنگ دے چکے تھے، لاہورہائی کورٹ نے فیصلے میں اسپیکر کی رولنگ کو ختم نہیں کیا، قانونی ماہرین کی رائے کے مطابق اسپیکر کی رولنگ کسی کورٹ میں چیلنج نہیں ہوسکتی، اسپیکر کو ابھی تک لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں ملا۔