جناح اسپتال کراچی کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور اعزازی لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر سیمی جمالی کو سپرد خاک کردیا گیا۔
ڈاکٹرسیمی جمالی کی نماز جنازہ جناح اسپتال سے متصل جامع مسجد میں ادا کی گئی جس میں سیاسی، سماجی، کاروباری شخصیات سمیت ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
ڈاکٹر سیمی جمالی نے بطورایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح اسپتال جو خدمات انجام دیں اسکی نظیر نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ ان کے جنازے پر ہر آنکھ اشکبار دکھائی دی۔
نماز جنازہ کے موقع پر آج نیوز سے گفتگو میں سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے پروفیشنل خاتون بننے کے بعد ناقابل یقین کارنامے انجام دئیے۔ میں وزیراعلیٰ سندھ سے درخواست کروں گا کہ جناح اسپتال کا کوئی حصہ یا شعبہ ایمرجنسی کو ان کےنام سے منسوب کیا جائے۔
اس موقع پر امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے جناح اسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کو ڈاکٹرسیمی جمالی کے نام سے منسوب کرنے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرسیمی جمالی ایک بہت بڑی شخصیت تھیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما مرتضی وہاب اور آئی جی سندھ پولیس نے بھی ڈاکٹر سیمی جمالی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
شعبہ طب میں مایہ ناز خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر سیمی جمالی کا سوئم پیر کو عصر تا مغرب ہوگا۔ مرد حضرات جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج (جے پی ایم سی) کی مسجد میں سوئم میں شرکت کرسکتے ہیں جبکہ خواتین کیلئے مکان نمبر سی ایک (C-1) ، ڈاکٹر کالونی، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج میں انتظام کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سیمی جمالی گزشتہ تقریبا ً ڈھائی سال سے آنتوں کے کینسر میں مبتلا تھیں، انہیں گزشتہ دنوں طبیعت خراب ہونے پر نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا تاہم وہ روبہ صحت نہ ہوسکیں اور خالق حقیقی سے جا ملیں۔
جناح اسپتال کی سابقہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ڈاکٹر سیمی جمالی نے صحت کے شعبہ میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ جس پر انھیں تمغہ ٔ امتیاز اور پاک فوج کی جانب سے اعزازی لیفٹیننٹ کرنل کا عہدہ بھی دیا گیا۔
آئرن، بُلٹ، بم پروف لیڈی اور خطروں کی کھلاڑی کے نام سے پکاری جانے والی ڈاکٹر سیمی جمالی نے میڈیکل کی دنیا میں اپنی خدمات سے بڑا نام کمایا۔
جناح اسپتال کی سابقہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے بہادری، دلیری اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحت کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ،ان کی خدمات کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ِممالک بھی سراہا جاتا رہا۔ 1988 میں ای آر (ER) ڈیپارٹمنٹ میں خدمات انجام دینے کا آغاز کیا۔
جدید ترین سہولیات سے آراستہ جناح اسپتال میں ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کو آج سارے پبلک سیکٹر اسپتالوں میں قابل فخر سمجھا جاتا ہے ۔ان کی بے پناہ خدمات پر انہیں تمغہ ٔ امتیاز اور پاک فوج کی جانب سے اعزازی لیفٹیننٹ کرنل کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر سیمی جمالی نے گزشتہ سال جنگ اخبار کو ایک انٹرویو میں اپنے بارے میں تفصیلات کچھ اسطرح بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ میری جائے پیدائش لاہور ہے ، چھ سال کی تھی تو امی کا انتقال ہوگیا، پھر اہل خانہ کے ساتھ کراچی اپنے دادا، دادی کے پاس آگئی گلستان شاہ عبدالطیف بھٹائی اسکول سے میٹرک ، پی سی ایچ ایس گورنمنٹ کالج سے انٹر میڈیٹ اور نواب شاہ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔
سول اسپتال میں ہاؤس جاب کی اور پھر تین ٹیسٹ دئیے۔ پہلا پبلک ہیلتھ فیڈرل کمیشن ، دوسرا آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور تیسرا ٹیسٹ این آئی سی وی ڈی کا دیا ۔ یہ تینوں ٹیسٹ پاس کرلیے۔ پھر پبلک ہیلتھ سروس کمیشن میں جانے کا ارادہ کیا۔
1993 ء میں تھائی لینڈ سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا ، پھر امریکا سے پبلک ہیلتھ پالیسی پلاننگ اور روٹ انجری ایمرجنسی کئیر میں پوسٹ گریجویٹ فیلو شپ ٹریننگ کی۔
1988ء میں جناح پوسٹ گریجوئٹ میڈیکل کالج (جے پی ایم سی ) سے کیرئیر کا آغاز کیا۔ جے پی ایم سی میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا، دن کا چین، رات کا سکون کسی کی بھی پروا نہیں کی ، بس ذہن پر ایک ہی بات سوار رہتی تھی کہ ایمرجنسی میں آئے ہوئے مریض کےعلاج میں کسی قسم کی لاپرواہی نہیں کرنی۔
سنگاپور اور دیگر ممالک سے متعدد کورسرز کیے۔ جب میں سنگاپور ، تھائی لینڈ ،لندن اور امریکا گئی تھی تو میں نے وہاں کی ایمرجنسی سے بہت کچھ سیکھا تھا ۔ان تمام چیزوں کو جی پی ایم سی میں عمل کرانے کی کوشش کی اور اس میں کافی حد تک کام یاب بھی رہی ۔ وقت کے ساتھ میں ایمرجنسی میں تبدیلیاں لاتی رہتی تھی۔ میری پہلے دن سے یہی کوشش تھی کہ ایمرجنسی میں موجود تمام مریضوں کو بہترین طبی سہو لت فراہم کروں۔ کسی کو کوئی شکایت نہ ہو۔ کوئی بھی مریض یہاں سے مایوس ہو کر نہ جائے۔
2010ء کے بعد جناح اسپتال کی ایمرجنسی بیرونی ممالک کی طرح کردی۔ میں ایمرجنسی وارڈ کا بالکل اس طر ح خیال رکھتی تھی جیسے ایک ماں اپنے بچے کا رکھتی ہے۔ میری دو بہنیں ہیں، دونوں امریکا میں ہیں۔ میرے شوہر کا تعلق بھی میڈیکل کے شعبے سے تھا وہ بھی ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔ دو بیٹے ہیں دونوں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
شروع سے ہی ڈاکٹر بننے کا سوچا تھا اور شوق بھی تھا ، مگر اسکول جانے کے بعد اپنی ٹیچرز کو دیکھ کر ٹیچر بننے کا شوق ہوگیا لیکن والدین چاہتے تھے کہ ہم تینوں بہنیں ڈاکٹر بنے، ان کے خواب اور خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ یہاں ایک بات ضرور بتانا چاہوں گی کہ میری امی کا تعلق بھی میڈیکل کے شعبے سے تھا۔
ڈاکٹر سیمی جمالی میں آنتوں کے کینسر کی تشخیص مرحومہ کے اور ان کے خاندان کے لیے شاید آخری چیلنج تھا کیونکہ یہ اس وقت ہوا جب ڈاکٹر سیمی جمالی کا بیٹا بیرون ملک تھا اور ان کے شوہر کو کو رونا وائرس میں مبتلا ہونے کے باعث اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
ان وجوہات کی بناء پر ڈاکٹر سیمی جمالی دو روز بعد کام پر واپس آئیں جس کے بعد انہوں نے صرف کیموتھراپی کے لیے چھٹی لینا شروع کر دی۔
ڈاکٹر سیمی جمالی نے شوہر ڈاکٹر جمالی، بیٹے عمر جمالی اور بابر کو سوگواران میں چھوڑا ہے۔