وفاقی حکومت نے ججز کی میبنہ آڈیولیکس کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا، جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
حکومت نے ججز کی آڈیو لیکس پر جوڈیشل کمیشن بنا دیا، کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اخترافغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامرفاروق بھی جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمیشن سے متعلق وفاقی حکومت نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔
کابینہ سیکریٹری کے جاری نوٹیفکیشن میں ٹی او آرز بھی شامل کیے گئے ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جوڈیشل کمیشن سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی سپریم کورٹ کے موجودہ جج اور ایک وکیل کے ساتھ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا، سابق وزیراعلیٰ اور وکیل کے درمیان مخصوص بینچز کے لیے مقرر کرنے کی تحقیقات بھی کرے گا۔
جوڈیشل کمیشن موجودہ چیف جسٹس، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائیکورٹ کے داماد سمیت آڈیو لیکس سے جڑے افراد سے بھی تحقیقات کرے گا۔
جوڈیشل کمیشن ذمے داروں کا قانون کے مطابق احتساب کرنے کا بھی فیصلہ کرے گا، یہ بھی دیکھے گا کہ کونسی ایجنسی ذمے داروں کا احتساب کرسکتی ہے۔
آڈیو لیکس پر بننے والے انکوائری کمیشن پر عمران خان نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کی شق 3 کے تحت کمیشن بنایا جس میں ٹرمز آف ریفرنس میں جان بوجھ کر کچھ چیزیں ہدف کی گئیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ وزیراعظم آفس اور ججز کی جاسوسی کے پیچھے کون ہے اس معاملے کی تحقیقات کو تو شامل ہی نہیں کیا گیا، البتہ ان افراد کے فون ٹیپ کرنا آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ کمیشن کو ان بااثر افراد کی بھی تحقیقات کا اختیار دیا جانا چاہئے، جن لوگوں نے ٹیمپرنگ کی اور لیک کالز کو سوشل میڈیا پر ڈالا ان کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔