محکمہ داخلہ پنجاب نے جناح ہاؤس پر حملے اور شہر کے مختلف تھانوں میں درج دیگر 9 مقدمات کی تحقیقات کے لیے جی آئی ٹیز بنا دی ہیں، جن کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
نگراں حکومت پنجاب نے 9 مئی کو جناح ہاؤس پر حملے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، اور محکمہ داخلہ پنجاب نے نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جے آئی ٹی کا سربراہ ڈی آئی جی کامران عادل کو مقرر کیا گیا ہے، جب کہایس ایس پی صہیب اشرف، ڈی ایس پی رضا زاہد، اے ایس پی تیمورخان اور انچارج انویسٹی گیشن محمد سرور بھی جے آئی ٹی میں شامل ہوں گے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق شہر کے مختلف تھانوں میں درج دیگر 9 مقدمات پر بھی جی آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے، اور محکمہ داخلہ نے آئی جی پولیس کی سفارشات پر نوٹیفکیشن جاری کردیے ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق تھانہ سرور روڈ میں درج 92/23 اور103/23 مقدمات میں ایس پی کینٹ ارسلان زاہد کو جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں درج 367/23،،366/23 مقدمات اور گلبرگ تھانہ میں درج 1280/23 مقدموں میں ایس پی شہزاد رفیق اعوان اور تھانہ گلبرگ میں درج 1271/23 مقدمہ میں ایس ایس پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود کو جے آئی ٹی کی سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق تھانہ شادمان میں درج 368/23 اور تھانہ نصیرآباد میں درج 1078/23 مقدمات میں ایس پی شہزاد رفیق اعوان کو جے آئی ٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے، جب کہ تھانہ ریس کورس میں درج 852/23 مقدمہ میں ایس پی زبیر احمد تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو جہاں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، وہیں شرپسند عناصر نے متعدد سرکاری اور نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا، مشتعل افراد نے ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت کو جلا کر خاکستر کردیا اور جناح ہاؤس لاہور کو بھی توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگا دی تھی۔
جناح ہاؤس پر حملے کے حوالے سے مزید تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں، جس کے مطابق پرتشدد مظاہرین دوپہر 2:35 سے لے کر 2:40 تک زمان پارک لاہور میں اکٹھے ہونا شروع ہوئے، 2:55 سے 3:20 کے دوران ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر قائدین لبرٹی چوک پہنچے، سہہ پہر 4:05 پر مشتعل ہجوم نے کینٹ کا رُخ کیا، 4:05 پر پہلے سے شرپسندوں کا ایک ٹولہ شیرپاؤ برج پر پہنچا ہوا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام 5:15 پر پہلا دھاوا جناح ہاؤس پر بولا گیا، جو 25-30 افراد پر مشتمل تھا لیکن اُسے واپس دھکیل دیا گیا، 5:27 پر شرپسندوں نے جناح ہاؤس بتدریج بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ دوبارہ انٹری کی۔
رپورٹ کے مطابق ساڑھے 5 بجے سے 6 بجے تک ان شرپسندوں نے بھرپور انداز میں جناح ہاؤس میں شدید توڑ پھوڑ کرکے شدید نقصان پہنچایا، 6 بج کر 7 منٹ پر جناح ہاؤس کو مکمل جلا دیا گیا، 6 بج کر 10 منٹ پر فورٹریس سے شرپسندوں کی مزید کمک جناح ہاؤس پہنچ گئی، جنہوں نے تباہ کاریوں میں اپنا کردار ادا کیا، 6 بج کر 13 منٹ پر مزید ایک اور جتھہ دھرم پورہ سے جناح ہاؤس پہنچ گیا۔
ساڑھے 6 بجے سے 7:55 تک تقریباَ 2 ہزار لوگوں نے اجتماعی طور پر جناح ہاؤس کو مکمل تباہ کردیا، تباہی کا یہ سلسلہ رات 8 بجے تک جاری رہا۔
اس کے ساتھ ساتھ شرپسندوں نے ملٹری انجینئرنگ سروسز کے دفتر پر بھی حملہ کر کے تباہی مچائی، ملک کے باقی علاقوں میں تقریباً 200 سے زائد جگہوں پر 2 سے 3 گھنٹے میں شر پسندوں نے تباہی مچادی جو سارے پاکستان نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔
جناح ہاؤس پر پوری منصوبہ بندی اور کوآرڈی نیشن کے ساتھ منظم طریقے سے حملہ کیا گیا تھا، جس میں چند شر پسند رہنماؤں کی براہ راست شرکت اور رہنمائی شامل تھی۔
مشتعل افراد کی جانب سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے شر پسند عناصر کی گرفتاریوں اور شناخت کا سلسلہ جاری ہے، اور اب تک متعدد افراد کی شناخت کرلی گئی ہے، جب کہ جناح ہاؤس پر حملہ کرنے والے شرپسندوں اور سیاسی جماعت کے درمیان رابطوں کے ثبوت بھی مل گئے ہیں۔
حملے کی تحقیقات کے دوران جیوفینسنگ کے ذریعے شرپسندوں اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان بات چیت اور میسجنگ کے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔ جس کے بعد نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے دہشت گردی کے واقعات کے منصوبہ سازوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا۔