Aaj Logo

شائع 19 مئ 2023 12:06am

’یورپی یونین کو بھارت کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے‘

یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو بھارت کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

روس سے سستے داموں خام تیل لے کر اس سے بنائی گئی مصنوعات یورپ کو فروخت کرنے پر یورپی یونین بھارت سے ناراض دکھائی دے رہی ہے جس کا اظہار یورپی یونین خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’بھارت کے لیے روس سے تیل لینا معمول کی بات ہے، لیکن اگر وہ روسی تیل کو صاف کرنے کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور تیار کردہ سامان ہمیں فروخت کیا جا رہا ہے، تو ہمیں اقدامات کرنے ہوں گے۔‘

جوزف بوریل نے مزید کہا کہ انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے گفتگو میں یوکرین پر روس کے حملے کی بات کی تھی جس میں فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھی شامل ہے لیکن انھوں نے روسی تیل کا ذکر نہیں کیا۔

یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو بھارت کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ انڈیا روس سے خام تیل لے کر اس سے بنائی گئی ریفائنڈ مصنوعات یورپی مارکیٹ میں فروخت کر رہا ہے۔ ان مصنوعات میں ڈیزل بھی شامل ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق روس اور یوکرین جنگ کو تقریباً ایک سال ہوگیا ہے اور اس دوران بھارت نے روس سے سب سے زیادہ تیل خریدا۔ بھارت نے ریفائنریوں کو سستا خام تیل ملنے سے کافی فائدہ اٹھایا اور وہ یورپ کو خام تیل سے حاصل کردہ ریفائینڈ مصنوعات فروخت کرکے زیادہ پیسے کما رہا ہے۔

بھارتی ریفائنریز نے روس سے مالی سال 2022-23 میں یومیہ نو لاکھ 70 ہزار بیرل سے نو لاکھ 81 ہزار بیرل تیل درآمد کیا۔ یہ ملک کی کل درآمدات کا پانچواں حصہ ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے سے پہلے، بھارت عام طور پر یومیہ اوسطاً ایک لاکھ 54 ہزار بیرل ڈیزل اور جیٹ ایندھن یورپ کو برآمد کرتا تھا جبکہ اس سال پانچ فروری سے یورپی یونین کی جانب سے روسی تیل کی مصنوعات کی درآمد پر پابندی کے بعد یہ بڑھ کر دو لاکھ بیرل ہو گئی ہے۔

یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ نے روسی تیل کے بہاؤ کو روکنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے یہ اشارہ بھی دیا کہ یورپی یونین خریداروں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ اگر روس تیل بیچ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کوئی خرید رہا ہے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کون خرید رہا ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایک پریس کانفرنس میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے مطابق،’ خام تیل جس کی شکل کسی تیسرے ملک میں یورپی یونین کی پابندیوں کے قوانین کے تحت تبدیل ہوتی ہے اسے روسی سامان نہیں کہا جا سکتا۔’

ایس جے شنکر نے اس سے قبل روس سے بھارت کی درآمدات کا بھی دفاع کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر مغرب پر تنقید کی تھی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ یوکرین میں فوجی کارروائی کے تناظر میں نئی دہلی پر روس سے تجارت کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا تھا۔

Read Comments