سیاسی ماہرین نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کے اجلاس کی میزبانی کو متنازع خطے میں ’معمول‘ کی صورتحال ظاہرکرنا قراردیا ہے۔ اقلیتوں سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کا کہنا ہےکشمیر کی صورتحال کی مذمت کی جانی چاہئیے نہ کہ اسے قالین کے نیچے دھکیل کرنظراندازکرناچاہیے۔
سیاحت پر جی 20 ورکنگ گروپ کا تیسرا اجلاس 22 سے 24 مئی تک ہورہا ہے، یہ 5 اگست 2019 کو کالے قانون کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پہلا انٹرنیشنل ایونٹ ہے۔ بھارت 19 ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل بین الحکومتی بلاک کا صدر ہے۔ یہ گروپ دنیا کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 80 فیصد ہے۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو اپنے براہ راست کنٹرول میں لینے کے بعد سے حکومت نے متعدد قوانین اور پالیسیاں آگے بڑھائی ہیں، کشمیریوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان کے مستقبل کے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کو کمزور کرنا ہے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ جی 20 ایونٹ سے خطے کی سیاحتی صنعت کو فروغ ملے گا کیونکہ وہ مندوبین کو ہمالیہ کی خوبصورت وادی کے دورے پر لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس تقریب سے قبل علاقے کے مرکزی شہرسری نگر کو نئی شکل دی رہی ہے۔ ائرپورٹ جانے والی سڑکوں کو نیا رنگ وروپ دینے کے علاوہ لیمپ پوسٹس کو بھارتی پرچم کے رنگوں سے سجایا جارہا ہے۔
شہر میں موجود سیکیورٹی بنکرز نیلے رنگ میں رنگ دیا گیا ہے جبکہ دنیا کے سب سے زیادہ عسکری تسلط والے علاقوں میں سے ایک میں نظر آنے والی کنسرٹینا تاروں کو کئی مقامات پرسے ہٹا دیا گیا ہے۔پورے شہر میں قومی پرچم لگائے جانے کے علاوہ اسکولوں، کالجوں اور دیگر سرکاری عمارتوں کو جی 20 لوگو سے پینٹ کیا گیا ہے جس میں وزیر اعظم نریندرمودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے انتخابی نشان کنول کا اضافہ کیا گیا ہے۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ’کسی بھی جگہ پر سلامتی کا احساس کانفرنسوں سے نہیں آتا‘۔ا
انہوں نے کہا کہ آس طرح کی تقریب کے لیے ایک منتخب وزیر اعلیٰ ہونا چاہیے تھا اور ہمارے پاس ایسا نہیں ہے 2018 میں خطے کی منتخب قانون ساز اسمبلی کی تحلیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ان کاکہنا تھا یکہ مجھے امید ہے دنیا ان چیزوں پر توجہ دے گی۔
معروف کشمیری کارکن کے ایک رشتہ دار، جنہیں 2019 کے اقدام کے بعد بھارتی کریک ڈاؤن کے تحت ”دہشت گردی“ کے الزامات پرگرفتارکرکے گھر سے دور قید کیا گیا تھا، نے الجزیرہ کو بتایا کہ جی 20 اجلاس ”ہمارے مصائب پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے“۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیںکہ بین الاقوامی برادری کچھ نہیں جانتی، ہم خاموشی سے تکلیف اٹھا رہے ہیں۔
امریکہ کے ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے الجزیرہ کو بتایا کہ بھارت جی 20 اجلاس منعقد کرکے یہ دعویٰ کرنا چاہتا ہے کہ خطے میں امن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی برادری میں بڑھتے ہوئے اس تاثر سے فائدہ اٹھانا ہے کہ کشمیر کو معمول پر لایا گیا ہے اور یہ ایک پرکشش موقع کی نمائندگی کرتا ہے نہ کہ خطرناک چیلنج کی ۔۔۔ دراصل نئی دہلی کے لیے سرینگر میں اس میٹنگ کے انعقاد کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ ’سب ٹھیک ہے‘ اور ’سب کچھ نارمل ہے‘۔ اور دنیا کا زیادہ تر حصہ اس بیانیے کو قبول کرے گا۔
تاہم نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار سرل شرما کا خیال ہے کہ اس اجلاس سے نہ صرف کشمیر میں سیاحت کے امکانات بلکہ 2019 کے بعد سیاحوں کی آمد میں ریکارڈ اضافہ بھی متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان جیسے کچھ ممالک سرینگر میں جی 20 اجلاس کے انعقاد پر ہندوستان کو تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان جی 20 گروپ کا رکن نہیں ،لہٰذا ان اعتراضات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اقلیتوں سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے فرنینڈ ڈی ویرینس نے ایک بیان میں بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ متنازع علاقے میں جی 20 اجلاس منعقد کرکے کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کے جمہوری اور دیگر حقوق سے ظالمانہ اور جابرانہ انکارکو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کشمیر کی صورتحال کی مذمت کی جانی چاہئیے نہ کہ قالین کے نیچے دھکیل کر نظراندازکرناچاہئیے۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ بھارتی حکومت جی 20 اجلاس کا اہتمام کرکے فوجی قبضہ معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے اور بین الاقوامی ’منظوری کی مہر‘ کو پیش کررہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہر نے مزید کہا کہ ، ’نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی کے بعد کشمیر میں ”بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں“ کی اطلاع ملی ہے۔ ان میں تشدد، ماورائے عدالت قتل، کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کے سیاسی شرکت کے حقوق سے انکار شامل ہیں۔جی 20 نادانستہ طور پر ایک ایسے وقت میں معمول کی صورتحال کو سہارا دے رہا ہے جب بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، غیر قانونی اور من مانی گرفتاریاں، سیاسی ظلم و ستم، پابندیاں اور یہاں تک کہ آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کے محافظوں کو دبانے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘
فرنینڈ ڈی ویرینس کے مطابق جی 20 جیسی تنظمیوں کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی ذمہ داریاں اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کے اعلامیے کو برقراررکھنا چاہئیے۔
جواب میں جنیوا میں اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مشن نے اس بیان کو ”بے بنیاد اور غیر ضروری الزامات“ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
مشن نے ٹویٹ کیا، ’جی 20 کے صدر کی حیثیت سے یہ بھارت کا استحقاق ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں اس اجلاس کی میزبانی کرے۔
تاہم ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے کوگلمین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی اکثریت پہلے ہی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ کشمیر اب مزید متنازع نہیں رہا۔
انہوں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سی حکومتیں نئی دہلی کے ساتھ اچھے تعلقات یقینی بنانے کے لئے کشمیر کے بارے میں کسی بھی تشویش کو بالائے طاق رکھنے کے لیے تیار ہیں، جسے بین الاقوامی برادری ایک اہم تجارتی اور سرمایہ کاری شراکت دار سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک بھی مسئلہ کشمیر پرخاموش ہیں۔