لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 22 افراد کی نظر بندی کا حکم معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ نے پی ٹی آئی کے 22 افراد کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار شاہین اعجاز اور حفیظ الرحمان کی جانب سے ظفر اقبال منگن ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
ایس ایس پی لیگل، سپرنٹنڈینٹ جیل اور ڈی سی لاہور بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ ڈپٹی کمشنر لاہور کے پاس نظر بندی کا حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں، نظر بند کے لیے خاطر خواہ مواد موجود نہیں ہے، غیر قانونی نظر بندی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، استدعا ہے کہ عدالت نظر بندی کے احکامات کالعدم قرار دے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے صرف پولیس رپورٹ پر 22 لوگوں کو جیل میں بند کر دیا، نظر بندی کے لیے شواہد ہونا ضروری ہیں، یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے نظر بندی کا حکم معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماؤں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے 22 افراد کے مقدمات کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔
دوسری جانب لاہورہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے 70 کارکنوں کی نظربندی معطل کردی۔
لاہورہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی نظر بندی کے خلاف سماعت ہوئی۔
عدالت نے پی ٹی آئی کے 70 کارکنوں کی نظربندی معطل کردی، جس کے بعد نظر بندی معطل ہونے والے کارکنوں کی تعداد 101 ہوگئی۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دیے کہ خدا کے واسطے اس ملک کو چلنے دیں، لوگوں کے حقوق پامال نہ کریں۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے 453 کارکنوں کی نظربندی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی گئی۔
عدالت نے پنجاب حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 23 مئی کو جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم نے چوہدری زبیر سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس نے کسی قانونی جواز کےبغیر انہیں نظر بند کیا، گرفتاری کے لیے پولیس نے گھروں پر دھاوا بولا اور چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا، پنجاب حکومت نے 9 مئی واقعے کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کے پرامن کارکنوں کو نظر بندی کیا۔
استدعا ہے کہ عدالت پی ٹی آئی کارکنوں کی نظری بندی کے احکامات کالعدم قرار دے کر رہائی کا حکم دے۔
جس پر عدالت نے حکومت پنجاب اور دیگر فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے23 مئی کو جواب طلب کرلیا۔