کراچی میں کریم کے ڈرائیور عمران صادق صرف یہ چاہتے ہیں کہ احتجاج ختم ہو جائے۔ وہ ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں پاکستان میں سیاسی امن کے قیام کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔
انہوں نے آج نیوز کو بتایا کہ ’میں جو گاڑی چلاتا ہوں اس کا مالک نہیں ہوں بلکہ مجھے گاڑی کے مالک کو روزانہ کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔‘ اس سے قطع نظر کہ عمران صادق روز کا کتنا کماتے ہیں، انہیں گاڑی کے مالک کو ایک مقررہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اگر مظاہرین کے درمیان رابطہ نہ ہونے دینے کیلئے ملک بھر میں انٹرنیٹ بھی بند کر دیا جاتا ہے، تو یہ مزدور ایک پائی بھی نہیں کماسکیں گے۔
عمران عام طور پر کریم سے روزانہ تقریباً 2700 روپے کماتے ہیں۔ تاہم جس دن عمران خان کو گرفتار کیا گیا اس دن انہوں نے صرف 1600 روپے کمائے۔ انٹرنیٹ منقطع ہونے کی وجہ سے وہ دو دن تک کام نہیں کر سکے۔
عمران خان کو 9 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسی شام سے حکومت نے پورے پاکستان میں انٹرنیٹ بند کر دیا تھا، تاہم کیبل انٹرنیٹ ابھی بھی کام کر رہا تھا ، لیکن کوئی بھی 3 جی یا 4 جی موبائل براڈ بینڈ استعمال نہیں کرسکتا تھا، نتیجتاً تمام ایپس نے کام کرنا بند کردیا۔
رائیڈ ہیلنگ کمپنی کریم کے ترجمان نوزیر نے تصدیق کی ہے کہ اس سے رائیڈ ہیلنگ کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس معطلی سے “دونوں طرح کے صارفین کو نقصان پہنچتا ہے جو اسکول، کام اور دیگرمیٹنگز کے لیے روزانہ اس پر انحصار کرتے ہیں، اور لاکھوں محنتی ڈرائیور بھی جو اپنی روزی روٹی کمانے اوراہل خانہ کی کفالت کے لئے اس پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں۔
ہفتہ کے روز انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئی تھی، لیکن اس میں اب بھی مسائل تھے جس سے عمران خان کی کمائی کم ہو کر 1500 روپے رہ گئی۔
اس پابندی کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ بائیکیا رائیڈر انس رضا نے کہا کہ ہمارے پاس چلتے پھرتے وائی فائی ڈیوائسز نہیں ہیں لہذا موبائل براڈ بینڈ پر پابندی کا مطلب ہے کہ ہم سڑک پر سواری بُک کرنے سے قاصر ہیں۔
انس ایک سال سے بائیکیا رائیڈر ہیں، یہ ان کی قسمت پر منحصر ہے، وہ کبھی کبھی ایک دن میں ڈھائی ہزار روپے تک کما لیتے ہیں لیکن جس دن عمران خان کو گرفتار کیا گیا اس دن بائیکیا سے ان کی کمائی صرف 500 روپے تھی۔ اگلے دو دنوں میں انہوں نے ایک پیسہ بھی نہیں کمایا۔
فوڈ پانڈا رائیڈراحمد نے اپنی مشکلات کچھ یوں بیان کیں، ’’انٹرنیٹ ہماری روزی روٹی ہے۔ جس کا انتطام کرنا افراط زر کی وجہ سے پہلے ہی بہت مشکل ہے۔ ہمیں اس کا بدلہ کون دے گا۔۔۔۔ حکومت یا عمران خان؟“۔