اسلام آباد ہائیکورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی دو ہفتے کے لئے ضمانت منظور کرلی، جب کہ عمران خان کو اسلام آباد کی حدود میں کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ نمبر 3 میں رش کے باعث عمران خان کی درخواست پر سماعت پھر سے کمرہ نمبر 2 میں منتقل کی گئی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی ڈویژنل بینچ نےعمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
اسلام ہائی کورٹ کی جانب سے تمام مقدمات میں ضمانت ملنے کے بعد عمران خان کئی گھنٹے تاخیر کے بعد عدالت سے لاہور کے لئے روانہ ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کو آئی جی اسلام آباد کی گاڑی میں ہائی کورٹ کے پچھلے راستے سے لاہور کے لئے روانہ کیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو آئی جی کی گاڑی میں ٹول پلازہ تک لیکر جایا جائے گا اس کے بعد عمران خان اپنی گاڑی میں لاہور کے لئے روانہ ہوں گے۔
واضح رہے کہ عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مقدمات میں ضمانت کا تحریری آڈر ملنے تک عدالت میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر اعتراض اٹھایا، اور مؤقف پیش کیا کہ کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی کہ اس عدالت سے کیوں رجوع کیا گیا، احتساب عدالت اس کورٹ سے بالکل قریب ہے، یہ نیب کا کیس ہے احتساب عدالت میں سنا جاسکتا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے مؤقف اختیار کیا کہ اس وقت آرٹیکل 245 نافذ العمل ہے، اس آرٹیکل کے نافذ العمل ہونےکے بعد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیارنہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل کیا یہاں مارشل لاء لگ گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا اور عمران خان کی ضمانت منظور کرلی۔ عمران خان کی ضمانت 2 ہفتے کے لئے منظور کی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں القادر ٹرسٹ کیس کے بعد عمران خان کی دیگر کیسزمیں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے درخواست پر سماعت کی۔
عمران خان نے عدالت سے نیب انکوائری رپورٹ فراہم کرنے کی درخواست کی، تاہم عدالت نے عمران خان کی درخواست غیر مؤثر قراردے دی۔
جسٹس حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کوانکوائری رپورٹ فراہم کی جا چکی ہے، کیس کی انکوائری رپورٹ توایک ہی ہوتی ہے۔
عدالت نے عمران خان کی درخواست غیرموثرہونے پر نمٹا دی اور ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت پر ہم کیس سنیں گے اور فیصلہ کریں گے۔
عدالت نے پروسیکیوٹر کو ہدایت جاری کی کہ آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کر کے آئیں، آئندہ سماعت پر دلائل سن کر ضمانت پر فیصلہ کریں گے۔
نیب پروسیکیوٹر نے عدالتی فیصلے کے بعد بات کرنے کی کوشش کی تو جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ خاموش رہیں عدالت نے آرڈرکردیا ہے۔
اسلام آباد ہاٸیکورٹ میں عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی اور اس کیس میں بھی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں دلاٸل شروع کیئے اور کہا کہ اس درخواست ضمانت پر رجسٹرار آفس کے اعتراض ہیں، 9 مٸی کو 2 کیسز میں ہاٸی کورٹ میں پیش ہونا تھا، پہلے بھی 2 مقدمات میں ضمانت کے کیسز کچہری نہیں بھجوائے، اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں کیسز اپنے پاس رکھے۔
عمران خان کے وکیل نے درخواست کی کہ استدعا ہے کہ اس کیس کو بھی ہائی کورٹ میں ہی سنا جائے، کچہری میں امن وامان کی صورتحال کے باعث کیسز ہاٸی کورٹ میں ہیں۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جی، پٹیشنر نے سپریم کورٹ میں بھی تمام چیزیں واضح کردی تھیں، کسی نامعلوم مقدمہ میں گرفتارنہ کرنے کا حکم بھی جاری کریں۔
جسٹس میاں گل حسن نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کیا احاطہ عدالت سے گرفتاری کامقدمہ درج ہوا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ہم اس واقع کی مذمت کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں عمران خان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، ان کی زندگی کو خطرات ہیں، انہیں ابھی بھی فول پروف سیکیورٹی دی گئی۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ عمران خان گرفتارتھےجو کچھ باہر ہوا اس کے ذمہ دار کیسے ہوئے، وہ توسیکیورٹی وجوہات کے باعث عدالت نہیں گئے تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سیدھا کہیں وہ عمران خان کو گرفتارکرنے کیلئے بے چین ہیں، اتنے بے چین تھے کہ قانون توڑ کر احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت عمران خان کےخلاف نامعلوم مقدمات کےخلاف ضمانت دے، عمران خان کو غیر اعلانیہ مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دیں۔
عدالت نے عمران خان کی تمام مقدمات میں ضمانت منظور کرلی اور عمران خان کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار کرنے سے روک دیا۔
عدالت نے واضح کیا کہ فیصلہ 9 مئی اور بعد میں ہونے والے مقدمات سے متعلق ہے اور فیصلے کا اطلاق صرف اسلام آباد کی حدود تک ہوگا۔
عدالت نے حکم دیا کہ عمران خان کو17مئی تک کسی مقدمےمیں گرفتارنہ کیا جائے، اور انہیں 9 مئی کے بعد درج کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ ریاست عمران خان کی سکیورٹی یقینی بنائے، اور عمران خان واضح ڈیکلریشن دیں کہ جو ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔
عمران خان کو جسٹس میاں گل حسن کی عدالت سے جسٹس طارق جہانگیری کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔
لاہور میں مقدمے پر حفاظتی ضمانت کی درخواست پر جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس طاہر عباس سماعت کر رہے ہیں۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل سلمان سفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو عدالت انہیں مقدمے پڑھنے کی ہدایت کی۔ سلمان سفدر کا کہنا تھا کہ عمران خان لاہور میں مخلتف مقدمات میں نامزد ہیں، وہ متعلقہ عدالت میں جانا چاہتے ہیں، لہٰذا عدالت مقدمات میں پیش ہونے کے لئے حفاظتی ضمانت دے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے عمران خان کی ظل شاہ کیس میں 10 روز کے لئے حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔
اس کے علاوہ عدالت نے عمران خان کو اے ٹی سی سمیت لاہور کے تین مقدمات میں 10 روز کے لئے حفاظتی ضمانت منظور کرلی اور چیئرمین پپی ٹی آئی کو 50 ہزار روپے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
ڈویژنل بینچ نے عمران خان کو پیر تک کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے روکنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کوئی خفیہ مقدمہ بھی ہو تو عمران خان کو گرفتار نہ کیا جائے۔
سماعت کے دوران عمران خان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ رانا ثنانے بیان دیا وہ مجھے گرفتار کریں گے، حالات آوٹ اف کنٹرول ہوئے تو تباہی ہوگی، فوج اور عوام کا آمنا سامنا کرایا جا رہا ہے، فوج کے پیچھے لوگ پڑے ہوئے ہیں جس سے پولیس کو بھی نقصان ہوگا۔
جسٹس طارق جہانگیری نے عمران خان کو جواب دیا کہ دونوں طرف ایک ہی کام ہے، آپ کی حکومت میں جاوید لطیف کیخلاف کیسز بنے تو ہم نے تب بھی مقدمات پر عمل درآمد سے روکا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے تین صفحات پر مشتمل عمران خان کی عبوری ضمانت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین کی وکلاء ٹیم کو بھی عدالت کا آڈر موصول ہوچکا ہے۔
تحریری حکم نامے کے مطابق عمران خان کو پیر تک کسی مقدمےم یں گرفتار نہ کیا جائے، 16ایم پی او کے تحت بھی عمران خان کی گرفتاری کو عمل میں نہیں لایا جائے گا۔
عدالت نے کہا کہ عمران خان کو کسی اور کرمنل کیس میں بھی پیر تک گرفتار نہ کیا جائے، ان کی عبوری ضمانت 22 مئی تک ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ عمران خان کو پیر تک پروٹیکشن دے رہے ہیں، وہ عدالت پیش ہوں اور عمران خان ضمانت کے لئے 50 ہزار روپے کے مچلکے بھی جمع کروائیں گے۔
آج عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت شروع ہوتے ہی نماز جمعہ کا وقفہ کردیا گیا تھا۔ وقفے کے دوران کمرہ عدالت میں کشیدگی شروع ہوگئی اور دونوں فریقین کے وکلاء آمنے سامنے آگئے۔
کشیدگی کے دوران عمران خان کمرہ عدالت میں کھڑے ہوگئے اور کہا کہ آپ لوگ تحمل کا مظاہرہ کریں، پہلے بھی ایک نعرے کی وجہ سے نقصان پہنچا، پتہ نہیں یہ کس نے پلان کیا تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آپ کے جملے پر اعتراض ہے۔ جس پر پی ٹی آئی اور سرکاری وکلاء میں تلخ کلامی ہوگئی اور ایڈووکیٹ جنرل بھی اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔
عمران خان کو حفاظتی ضمانت کے لیے سخت سیکیورٹی میں پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا گیا۔ عدالت پہنچنے کے بعد عمران خان کا ڈائری برانچ میں بائیو میٹرک کیا گیا۔
کمرہ عدالت میں صرف 20 لوگوں کی گنجائش ہے جبکہ وہاں 100سے زیادہ افراد موجود تھے۔ عمران خان کے وکیل انتظار پنجوتھہ کورٹ روم نمبر 3 پہنچے جہاں غیر متعلقہ افراد کو باہرکال دیا گیا، اس موقع پر وکلاء کی سیکیورٹی عملے سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔
سماعت سے قبل کورٹ روم نمبر 3 کے باہر رینجرز نے پوزیشن سنبھال لی جبکہ کورٹ روم کو خالی کرا کے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے وہاں کلیئرنگ اور سوئپنگ کا عمل مکمل کیا۔
عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے باعث عدالت کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے پچھلے دروازے کو سیل کردیا ہے اور دو دروازوں پر سکیورٹی کےانتہائی سخت انتظامات ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی جبکہ ایف سی اہلکار اور اسلام آباد پولیس کی ٹیمیں سرینگر ہائی وے اور عدالت کے اطراف تعینات کی گئی۔
پیشی کے موقع پر کسی غیر متعلقہ شخص کو ہائی کورٹ میں داخلے کی اجازت نہیں تھی، اور اسلام آباد پولیس چیکنگ کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطراف داخلے کی اجازت دی جاتی رہی۔
پولیس عمران خان کو عدالت میں پیشی کے لیے پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس سے لے کر روانہ ہوئی اور ان کے قافلے کی سکیورٹی کے انتظامات ڈی آئی جی آپریشنز دیکھ رہے تھے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی دو ہفتے کے لئے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت منظور کیئے جانے بعد انہیں بنی گالہ میں منتقل کرنے کا امکان ہے۔
مزید پڑھیں: سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے مناظر
آج عمران خان کی جانب سے القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی جس میں چیئرمین نیب کو فریق بنایا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست سماعت کے لیے مقرر کی، اور جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل 2 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے قریب سے فوج اور پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس دوران کچھ جگہوں پر شیلنگ بھی کی گئی۔
اسلام آباد پولیس نے سری نگر ہائی وے سے 30 سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
عمران خان کو ہائیکورٹ لائے جانے سے قبل فوج اور پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لئے کئی جگہوں پر شیلنگ بھی کی گئی۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں ریلی کے لیے کارکنان کو آج صبح کی کال دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: عمران کی گرفتاری کا باعث ’القادر ٹرسٹ کیس‘ کے پیچھے کیا کہانی ہے؟
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی قرار دی تھی تاہم بنی گالا جانے کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔
عمران خان کو رات پولیس لائن کے گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں عمران خان کو کہا تھا کہ آپ گیسٹ ہاؤس میں رات گزاریں، گپ شپ لگائیں اور سو جائیں، صبح عدالت میں پیش ہوجائیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا آپ کو ماننا ہوگا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دی تھی۔