Aaj Logo

شائع 11 مئ 2023 03:42pm

’لیکن کوئی تھا اوراب بھی ہے‘

دو روز۔۔ 139 مقامات پر سڑکیں بلاک ۔۔پرتشدد مظاہرے ۔لوٹ مار ۔۔ 7 لاشیں۔۔ 58 پولیس اہلکاروں سمیت 300 سے زائد افراد زخمی اور اب تک 659 افراد کی گرفتاری۔احتجاج کے دوران صوبے کی 13 سرکاری عمارتوں سمیت مجموعی طور پر پندرہ املاک کو نذر آتش کر دیا گیا۔جن میں دیر کی ایک درسگاہ بھی شامل ہے ۔صوبے کے مختلف علاقوں میں مظاہرین نے 12 سرکاری گاڑیوں سمیت 17 گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ریڈیو پاکستان پشاور ، نادرا میگا سنٹر ، پولیس چوکیاں اور دیگر کئی عمارتوں اور دکانوں سے چوریاں کی گئیں ۔ سوات ایکسپریس وے کے جلاو گھیراو میں نقصان کاتخمینہ 6 کروڑ 50 لاکھ روپے لگایا گیا ہے

یہ تو وہ نقصان ہے جسکا تخمینہ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے لگایا ہے لیکن میرے نزدیک پختونخوا کے باسیوں کا اصل نقصان وہ خلوص اور اس کی شدت ہے جسکا ہمیشہ منفی انداز میں استعمال کیا گیا ۔2007 ہو یا اس سے قبل 80 کی دہائی اور پھر 90 کی دہائی ۔۔۔ایک نظریہ اور اسکا ایسا پرچار جو ہر ایک کو اپنی گرفت میں لے لے ۔لیکن اس نظریے کے پیچھے کے کھیل کا منظر نامہ ہمیشہ نقصان کے بعد سامنے لایا گیا اور وہ بھی اس لیے تا کہ بتایا جا سکے کہ آپ کے اپنوں نے ہی آپ کو لوٹا ہے اور کوئی نہیں تھا ۔

لیکن کوئی تھا

اور یہ تاریخ نے ثابت بھی کیا ۔ چاہے افغانستان جہاد کے نام پر بھیجے گئے معصوموں کی کنٹینر سے ملنے والی لاشیں تھیں یا پھر مکئی کے کھتیوں میں پھینکے گئے بے جان جسم ۔یا پھر اب تک نہ ملنے والے پیاروں کی یادیں ۔یہ سب کروانے والے ناموں کے ساتھ سامنے تھے جن میں سے اکثر اب نہیں رہے لیکن ۔۔۔

کوئی اور بھی تھا ۔۔۔۔۔ جو تھا لیکن دکھائی نہیں دیا

ایسا ہی کچھ 9 اور 10 مئی کو بھی مجھے دیکھنے کو ملا ۔پشاور کے جی ٹی روڈ پر قلعہ بالا حصار کا سامنے اپنے رہنما کی محبت میں سرشار آزادی کے نعرے لگاتے نوجوان ، ان کی آنکھوں میں چھلکتی بدلے کی آگ اور سب کچھ مٹا دینے کی طاقت رکھنے کا زعم ۔یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے جھری جھری سی آگئی ۔۔ایسا لگا کہ 2 دہائیوں سے سرحد پار سے آنے والی آگ پہاڑوں سے اتر کر میدانوں میں آگئی ہو۔وہی نعرے ،وہی نفرت ،وہی انداز ۔کسی کو نہیں مانتے سوائے اُس سوچ کے جسکا سبق کئی سالوں سے پڑھایا گیا تھا۔اور میں سوچ رہی تھی کہ اس غصے اور نفرت کو کسیے ختم کریں گے ۔کون ان سوالوں کا جواب دے گا جو کابل ،قندھار ، وزیرستان ،باجوڑ اور ملاکنڈ سے ہوتے ہوئے آج بالا حصار کے سامنے پوری شدت کے ساتھ موجود تھے ۔

کس نے کیا یہ سب کچھ ؟ کیا مقصد تھا اس کے پیچھے ؟ کس کو ہرانا ہے اور کس نے جیتنا ہے ؟ یہ سوال ایک فلم کی طرح میرے ذہن میں چل رہے تھے کہ اچانک گولیاں چلنے کی آوازوں سے پوری فضا گونج اٹھی ۔ایک ۔۔۔ دو ۔۔۔ تین ۔۔۔ چار اور پھر سات ۔ یہ لاشیں نہیں خواب تھے ، ملک کی تقدیر بدلنے کے، طاقت اپنے ہاتھوں میں لینے کے ، لیکن اب صرف خون تھا اور پھر قبر کی گیلی مٹی ۔

خیبر پختونخوا میں ایسے کئی قبرستان ہیں جہاں قبروں کے کتبوں پرمقتول لکھا جانا چاہیے تھا وہاں شہید کے الفاظ درج ہیں کیونکہ ہمیں پڑھائے گئے ہرسبق کا سب سے خوبصورت فریب آخر یہیں جا کرختم ہوتا ہے اور 9 اور 10 مئی کے خوبصورت فریب کا انجام بھی یہی تھا۔

جو مٹی کا رزق بن گئے وہ تو گئے لیکن جو اب بھی سانسیں لے رہے ہیں ، ان میں سے ایک بہت پڑھے لکھے شخص نے پختونوں کے لئے فخریہ انداز میں یہ جملہ لکھ کر مجھے بھیجا۔

”پوری قوم کوپشتونوں کے خون کا ٹیکہ لگانے کی ضرورت ہے“۔

اور

اس پیغام نے مجھے سُن کردیا۔

Read Comments