پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر، فواد چوہدری ، شاہ محمود قریشی اور علی زیدی سمیت دیگر رہنماؤں کو گرفتار کیا جاچکا ہے، تاہم اب بھی پی ٹی آئی کے اہم رہنما کارکنان کی قیادت کے لئے موجود ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں پر تشدد واقعات میں ملوث 3500 سے زائد افراد گرفتار کرلیے گئے۔
اسلام آباد میں پرتشدد مظاہروں میں ملوث 200 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 2 روز کے دوران ہنگامہ آرائی کے خلاف 4 مقدمات درج ہوئے۔
شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری اور علی محمد خان سمیت 8 مرکزی رہنما گرفتار ہوئے، گرفتار ہونے والوں میں جمشید چیمہ، مسرت جمشید چیمہ، عالیہ حمزہ ملک اور ملیکہ بخاری بھی شامل ہیں۔ تمام رہنماؤں کو3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان کو کچھ دیر پہلے ہی اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق تھانہ سیکرٹریٹ پولیس نےعلی محمد خان کو سپریم کورٹ جاتے ہوئے سرینا ناکے سے گرفتار کیا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے اہم رہنما اب بھی اپنے کارکنان کی قیادت کے لئے ان کے درمیان موجود ہیں، اور ان میں سب سے پہلا نام سیف اللہ خان نیازی کا آتا ہے، جنہیں ناصرف جماعت میں اہم مقام حاصل ہے بلکہ انہیں عمران خان کے دیرینہ ساتھی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ کے پی اورسابق وزیردفاع پرویز خٹک بھی اس فہرست میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، اور موجودہ صورتحال میں خیبرپختون خوا کے عوام کو احتجاج کے لئے باہر نکالنے کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے، تاہم انہیں تاحال گرفتار نہیں کیا گیا۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی عمران خان کی سیاست کے اوائل سے ہی ان کے ساتھ ہیں، اور انہیں بھی عمران خان کا جانثار ساتھی مانا جاتا ہے، وہ ابھی تک پولیس کی گرفت سے دور ہیں تاہم موجودہ صورتحال میں وہ منظر عام پر بھی نہیں آرہے۔
پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کی گرفتاری کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل صوبے کے عوام بالخصوص پی ٹی آئی کراچی کے کارکنان کی قیادت کریں گے، تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا، عمران اسماعیل کا موجودہ صورتحال میں کوئی بیان یا احتجاج ریکارڈ نہیں ہوا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں بھی تاحال گرفتار نہیں کیا گیا۔
سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما حماد اظہر بھی تاحال پولیس کی گرفت میں نہیں آئے، جب کہ وہ تواتر کے ساتھ عمران خان اور کارکنان کی گرفتاریوں کے حوالے سے بیانات جاری کررہے ہیں۔
تحریک انصاف کی سینئر رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد جو اب آڈیو لیکس کے حوالے سے خبروں کی زینت بنی رہتی ہیں، وہ بھی تاحال پولیس کے ہاتھ نہیں آئیں، جب کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد بھی لاہور میں پرتشدد مظاہروں کے حوالے سے یاسمین راشد ایک آڈیو لیک ہوچکی ہے۔ جس میں انہیں اعجاز منہاس کے ساتھ بات کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
جناح ہاؤس لاہور پرحملے کے بعد یاسمین راشد کی مبینہ آڈیو میں یاسمین راشد کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے واٹر کینن کے ذریعہ پیچھے ہٹا دیا ہے۔ ان کا سوال تھا کہ ہم لبرٹی جائیں یا ادھر کی رہیں۔
ان سوال کا جواب دیتے ہوئے اعجاز منہاس کہتے ہیں کہ ادھر سے پوچھیں نا، اگر بیٹھنا ہے تو لبرٹی بیسٹ جگہ ہے۔ وہاں ارینجمنٹ ہوجائے گی، قالین بچھائیں گے، ڈیرہ لگائیں گے۔ ہوگیا جو آپ لوگوں نے کرنا تھا،اب رات کی کال دیں۔
عمران خان کے ہرجلسے میں میزبانی کے فرائض انجام دینے والے سینیٹر فیصل جاوید بھی تاحال پولیس کی نظروں سے اوجھل ہیں، لیکن عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کا کوئی جارحانہ ردعمل بھی سامنے نہیں آیا۔
’جان تو اللہ کو دینی ہے‘ کے جملے سے مشہور تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی منظر عام سے غائب ہیں، آخری بار زمان پارک آپریشن کے دوران انہیں پولیس کے سامنے مزاحمت کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا تاہم عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے وہ احتجاج کرتے یا بیان دیتے ہوئے نظر نہیں آئے، اور تاحال پولیس کی گرفتاری سے بھی بچے ہوئے ہیں۔
عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی مانے جانے والے سابق وزیر مواصلات مراد سعید کافی دنوں سے میڈیا سے دور ہیں، انہیں بھی آخری بار زمان پارک آپریشن میں پولیس کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا، تاہم اب عمران خان کے گرفتار ہونے کے بعد سے اب تک کوئی تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، اور پولیس نے بھی ان کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا، جس کا مطلب ہے کہ وہ بھی محفوظ ہیں۔
فرخ حبیب تحریک انصاف کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں، انہیں گزشتہ دنوں دبئی جانے سے روک لیا گیا تھا اور اسلام آباد ائرپورٹ سے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ اے ایس ایف کو چکمہ دے کر فرار ہوگئے تھے، جس کے بعد انہوں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، تاہم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کا کوئی خاطر خواہ ردعمل سامنے نہیں آیا، اور وہ بھی تاحال پولیس کے ہاتھ نہیں لگے۔
پنجاب پولیس نے اب تک صوبے بھر میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 2217 سے زائد شرپسند عناصر کوگرفتارکیا ہے۔
ترجمان پولیس کے مطابق پرتشدد کارروائیوں میں پنجاب میں 150 سے زائد افسران اور اہلکار زخمی ہوئے، لاہور میں 63، راولپنڈی 29، فیصل آباد میں 25 ، گوجرانوالہ میں 13، اٹک میں 10، سیالکوٹ میں 5 اور میانوالی میں 6 افسران اور اہلکار زخمی ہوئے۔
پنجاب پولیس کے زیراستعمال 72 گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور نذر آتش کی گئیں، لاہور میں 22، راولپنڈی 18، فیصل آباد 15، گوجرانولہ میں 3، سیالکوٹ 5، بھکر میں 2، ملتان 4 اور اٹک میں ایک گاڑی کو نقصان پہنچایا گیا۔
آئی جی پنجاب عثمان انور کا کہنا ہے کہ تمام شرپسند عناصر کو ٹریس کرکے گرفتار کر رہے ہیں، سرکاری و نجی املاک، پولیس ٹیموں پر حملوں اور پر تشدد کاروائیوں میں ملوث شرپسند کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
خیبرپختونخوا میں پرتشدد مظاہروں میں اب تک 7 افراد جاں بحق اور 152 افراد زخمی ہوئے۔
پشاور میں 4، کوہاٹ 2 اور دیر میں ایک شخص جاں بحق ہوا جبکہ زخمی ہونے والوں میں 36 پولیس افسران اور اہلکار بھی شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق خیبرپختونخوا میں پرتشدد مظاہروں میں ملوث 659 افراد گرفتار ہوئے۔
ادھر کراچی میں پرتشدد مظاہروں میں ملوث اب تک 400 افراد گرفتار کیے گئے اور 7 مقدمات درج ہوئے۔
بلوچستان میں بھی پرتشدد مظاہروں میں ملوث 70 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اسلام آباد پولیس نے شاہ محمود قریشی کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین کو گلگت بلتستان ہاؤس اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے گرفتاری سے قبل اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ پولیس مجھے گرفتارکرنے آگئی ہے، یہ حقیقی آزادی کی تحریک ہے، میرا دامن صاف ہے، 40 سال ایمانداری سے سیاست کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحثیت وزیرخارجہ پاکستان کا ہر فورم پر دفاع کیا، یہ جدوجہد عمران خان کی رہائی تک جاری رہے گی، قانون کو پہلے کبھی ہاتھ میں لیا نہ اب لیں گے۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق منصوبہ بندی کے تحت جلاؤ گھیراؤ اور نقص امن کے خطرے کے تحت پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتاریاں قانونی تقاضوں کو مکمل کرکے عمل میں لائی گئی ہیں، مزید گرفتاریاں متوقع ہیں، عوام مِیں افواہ اور اشتعال پھیلانے سے گریز کریں۔
گزشتہ روز فواد چوہدری سپریم کورٹ میں موجود تھے، انہیں عدالت سے باہر آنے پر اسلام آباد پولیس نے گرفتار کرکے تھانہ سیکریٹریٹ منتقل کردیا تھا۔
سپریم کورٹ سے باہر آکر فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں میری کل ہی ضمانت منظور ہونے کے باوجود مجھے گرفتار کیا جارہا ہے۔
کچھ دیر قبل فواد چوہدری نے اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت نے کل فیصلہ دیا کہ مجھے 12 تاریخ تک کسی بھی کیس میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا تاہم باہر اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری مجھے گرفتار کرنے کیلئے موجود ہے۔
اسلام آباد پولیس تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کو بھی گرفتار کرچکی ہے، رہنما پی ٹی آئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس اسد عمر کو ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کرکے نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہوئی، انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے اہلکار بھی پولیس کے ہمراہ تھے۔
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ اسد عمر کو 16 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور ریلی نکالنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں درج ہے کہ انہوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی۔
پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کو منگل کے روز عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج کے دوران کراچی سے گرفتار کیا گیا۔
گرفتاری سے متعلق علی زیدی کی اہلیہ یاسمین زیدی نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی۔ جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ علی زیدی کو غیر قانونی حراست میں لیا گیا۔ آئین پاکستان ہر شہری کو پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے۔
آئینی درخواست میں محکمہ داخلہ سندھ ، آئی جی سندھ اور دیگر کو فریق بنایا گیا جبکہ عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی کہ صوبائی حکومت اور پولیس کو علی زیدی کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
ترجمان پولیس کے مطابق شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور فواد چوہدری کے علاوہ جمشید اقبال چیمہ، مسرت جمشید چیمہ اور ملیکہ بخاری کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا، شاہ محمود قریشی ، اسد عمر اور فواد چوہدری کو تھری ایم پی او کے تحت جیل منتقل کیا گیا۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے لبرٹی چوک لاہور میں پلازہ جلانے کے مقدمہ میں پی ٹی آئی رہنما عمر سرفراز چیمہ کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم دے دیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کی جج عبہر گل خان نے 11 شریک ملزمان کو شناخت پریڈ کے لیے جیل بھجوا دیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے مزید رہنماؤں کو بھی گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن میں علی اعوان، راجا خرم نواز، عامر مغل اور فواد چوہدری شامل ہیں جبکہ اسلام آباد کی ضلعی قیادت کو بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اب تک اسلام آباد میں پی ٹی آئی قیادت کے خلاف 10مقدمات درج ہیں، تحریک انصاف کی قیادت نے کارکنان کو احتجاج کی کال دی تھی، اور کارکنان نے احتجاج کے نام پرشہرمیں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کیا۔
دوسری جانب پولیس کو سپریم کورٹ سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے احکامات موصول ہوئے جس کے بعد ایس ایس پی آپریشن بھاری نفری کے ساتھ سپریم کورٹ پہنچے تھے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت اور ضلع انتظامیہ کے درمیان سپریم کورٹ میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی پر مشاورت کی جا رہی ہے۔
کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار واقعے کے پیش نظر اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے، پولیس، رینجرز، ایف سی کی بھاری نفری عدالت کے اطراف تعینات کی گئی جب عدالت جانے والے تمام راستے کنٹینرز لگا کر سیل کردیئے گئے۔
گزشتہ روزعمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی گرفتار کا بھی امکان ظاہر کیا گیا تھا۔