سال 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پاکستان کے معروف ترین پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین کی فیملی کے ساتھ 190 ملین پاؤنڈ مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا۔
این سی اے کی تاریخ میں یہ تصفیہ اب تک کا سب سے بڑا تھا، اور چونکہ یہ عدالت سے باہر ہوا تھا، اس لئے اس میں یہ شرط شامل کی گئی تھی کہ اس میں کسی جرم کے ارتکاب کا حوالہ نہیں دیا جائے گا۔
این سی اے برطانیہ میں قانون نافذ کرنے والی ایک نیشنل ایجنسی ہے جو منی لانڈرنگ اور برطانیہ اور بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی غیر قانونی مالیات کی تحقیقات کرتی ہے۔
اگر این سی اے برطانیہ سے باہر کسی کیس کی تحقیقات کرتی ہے تو وہ چوری شدہ رقم متاثرہ ریاست کو واپس کر دیتی ہے۔
لہٰذا اگر ایجنسی پاکستان میں دھوکہ دہی یا منی لانڈرنگ کی تحقیقات کر رہی ہے، تو وہ برطانیہ میں مقدمہ چلائے گی یا تصفیہ کرے گی اور رقم پاکستانی حکومت کو واپس کرے گی۔
ملک ریاض کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔
ان کا خاندان کچھ عرصے سے این سی اے کی ”ڈرٹی منی“ کی تحقیقات کی زد میں تھا، جس کا اختتام 190 ملین پاؤنڈ کے تصفیے پر ہوا۔
تاہم، یہ معاملہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی انٹری پر الجھ جاتا ہے، جنہوں نے بظاہر ملک ریاض کے کہنے پر این سی اے کو معاملہ طے کرنے اور رقم پاکستان کو واپس کرنے پر راضی کیا۔
5 دسمبر 2019 کو، شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ 140 ملین پاؤنڈز پاکستان کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں واپس بھیجے گئے ہیں۔
جب شہزاد اکبر سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم کیسے منتقل کی جا سکتی ہے، تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے سوال کو ٹال دیا کہ حکومت، این سی اے اور ملک ریاض نے ایک ”رازداری کے معاہدے“ پر دستخط کیے تھے، جس کی وجہ سے وہ اس معاملے کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں آکر معاملہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا جب کہ این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دی تھی۔
لیکن یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے ہیں۔
اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے سپریم کورٹ میں ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔
عمران خان کی کابینہ کے رکن فیصل واوڈا یہ کہہ چکے ہیں کہ کابینہ نے بند لفافے میں سمری کی منظوری دی تھی جو کہ برطانیہ سے موصول 190 ملین پونڈ کی ملک ریاض کی جرمانے کی ادائیگی کے لیے منتقل کی گئی۔
تین دسمبر 2019 کو وفاقی کابینہ سے بند لفافے میں سمری کی منظوری کے بعد حکومت نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔
دوسری جانب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی ملک ریاض سے کیے جانے والے معاہدے کی تفصیلات رازداری میں رکھیں۔
بنیادی طور پر، الزام یہ ہے کہ ملک ریاض کی جانب سے شہزاد اکبر کی این سی اے کے ساتھ مداخلت کے بعد پاکستان کو واپس بھیجے گئے 140 ملین پاؤنڈ سیدھے پراپرٹی ٹائیکون کے بینک اکاؤنٹ میں چلے گئے۔
برسرِ اقتدار آنے کے بعد، موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام لگایا کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن سے اربوں کی نقد رقم اور سینکڑوں کنال اراضی اس مدد کے بدلے میں لی، جو عمران خان کی حکومت نے ملک ریاض کو این سی اے تحقیقات کے دوران فراہم کی تھی۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے معاہدہ کیا اور عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ملکیتی ٹرسٹ کو 458 کنال اراضی دی جس کی کاغذی قیمت 530 ملین روپے تھی۔
’یہ زمین القادر ٹرسٹ کو عطیہ کی گئی تھی اور معاہدے پر رئیل اسٹیٹ کے عطیہ دہندگان اور بشریٰ بی بی کے دستخط تھے۔‘
رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ عمران کے ساتھی شہزاد اکبر نے پورا معاملہ سیٹل کرلیا، جب کہ 50 ارب روپے جو کہ قومی خزانے سے تھے، بحریہ ٹاؤن کے قرض کی مد میں ایڈجسٹ کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ عمران نے کیس کو سمیٹنے سے قبل شہزاد اکبر کے ذریعے 5 ارب روپے ”اپنے حصہ“ کے طور پر وصول کئے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کے 50 ارب روپے ملنے کے بعد عمران اور ان کی اہلیہ کی ملکیت والے ٹرسٹ کو 458 کنال اراضی الاٹ کی تھی جس کی قیمت 530 ملین روپے تھی۔
رانا ثناء اللہ نے تھا کہ مزید 240 کنال زمین ”فرح شہزادی“ کو منتقل کی گئی جنہیں عرف عام میں فرح گوگی کہا جاتا ہے، اور جو بشریٰ بی بی کی قریبی دوست ہیں۔
یہی 458 کنال اب احتساب بیورو کی جانچ پڑتال کی زد میں آچکے ہیں۔
24 نومبر کو ملک ریاض کو بھیجے گئے کال اپ نوٹس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ سوہاوہ، ضلع جہلم کی تحصیل موضع برکلا میں حدبست نمبر 77 میں واقع 458 کنال چار مرلہ 58 مربع فٹ کی خریداری کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے دستاویزی ثبوت کے ساتھ پیش ہوں۔
انسداد بدعنوانی کی اعلیٰ ترین باڈی نے ملک ریاض حسین سے اس حوالے سے مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا مطالبہ کیا، اسی طرح ان سے کہا گیا کہ وہ، وہ ڈیڈ پیش کریں جس کے ذریعے میسرز بحریہ ٹاؤن نے مذکورہ زمین القادر ٹرسٹ کو ریونیو دستاویزات کے ساتھ عطیہ کی تھی۔
اس عطیہ کردہ زمین پر 2019 میں القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا، یہ یونیورسٹی ایک ٹرسٹ کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔
اس کے اصل معتمد عمران خان (اُس وقت کے وزیراعظم)، بشریٰ خان (عمران کی اہلیہ)، ذوالفقار عباس بخاری (زلفی بخاری) اور ظہیر الدین بابر اعوان تھے۔
بعد ازاں زلفی بخاری اور بابر اعوان کو ٹرسٹ سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ ڈاکٹر عارف نذیر بٹ اور مسز فرحت شہزادی المعروف فرح خان کو تعینات کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عطیہ کی گئی اراضی کے اعترافی معاہدے پر مسز بشریٰ خان (القادر یونیورسٹی کی جانب سے) اور ٹرسٹ دینے والے ادارے کے درمیان اس وقت دستخط کیے گئے جب عمران خان (القادر یونیورسٹی کے چیئرمین) وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔