پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطاء اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس (ڈی جی سی آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیصل نصیر پر الزامات کی بوچھاڑ آج نہیں ہو رہی، بلکہ اس معاملے کو کئی ماہ گزر گئے ہیں۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے عطاء تارڑ نے کہا کہ وزیر آباد میں عمران خان پر حملہ ہوا تو ایک شخص گرفتار ہوا جس نے مذہبی منافرت کے تحت حملے کا اعتراف کیا اور ایک شخص معظم گوندل عمران خان کے گارڈ کی گولی سے مارا گیا۔ پرویز الہیٰ کی حکومت تھے اور پریشر ڈالا گیا کہ تین افراد وزیراعظم شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور ڈی جی سی فیصل نصیر کے خلاف پرچہ کاٹا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی اپنی حکومت نے پرچہ اس لئے نہیں دیا کہ ثبوت اور شواہد موجود نہیں تھے۔ انہوں نے ہمارے حلقے کے دو لوگ اٹھا لئے کہ تم مریم یا رانا ثناء اللہ کا نام لو۔
عطاء تارڑ نے کہا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ان کو ایک ادارہ چاہئیے تھا، ان کو اس ادارے کی عادت پڑی ہوئی ہے جو ہر معاملے میں ان کے حق میں مداخلت کرتا تھا، اپریل میں اس ادارے نے کہا کہ ہم نیوٹرل ہوگئے ہیں، اب یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس ادارے کو سیاست میں ملوث کیا جائے، ادارہ ملوث نہیں ہونا چاہتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل فیصل نصیر کے خلاف اگر آپ کو اتنا شکوہ ہے تو آپ نے کونسا قانونی فورم اختیار کیا ہے؟ یا کیا شواہد اکٹھے کرکے منظر عام پر لائے ہیں۔
ن لیگی رہنما نے بتایا کہ ہمارے بار کے صدر ہیں مسلسل گوندل جو گواہی دیتے ہیں کہ ’انہوں نے معظم گوندل کی فیملی کو بلڈ منی (دیت کی رقم ) دی ہے عمران خان صاحب نے، کروڑوں روپے بیگ میں گئے ہیں جو انہوں نے معظم گوندل (کی فیملی) کو ادا کئے ہیں کہ اپنا منہ بند رکھنا، تفتیش کے حوالے سے مت بولنا، اس کی فیملی کے پاس کئی راز ہیں‘۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے کہا کہ چوہدری پرویز الہیٰ کو اسٹبلشمنٹ کا بڑا پتا تو ہے کیونکہ انہوں سیاست ہی اسٹبلشمنٹ کے سہارے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری پرویز الہیٰ کے حقیقی اسٹبلشمنٹ والے بیان کی انکوائری ہونی چاہئے ’کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ اس ملک میں جو فتنہ پھیلایا جارہا ہے حقیقی اسٹبلشمنٹ اس کے پیچھے ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹبلشمنٹ کا ایک گلدستہ ہوتا ہے جس میں بزنس ٹائیکون، میڈیا ٹائیکون، سپریم کورٹ، فوج ہوتی ہے، فوج کے چند جنرلز ہوتے ہیں، سیاسی اشرافیہ بھی ہوتی ہے۔
ندیم افضل چن نے کہا کہ چوہدری صاحب دو دفعہ سابق وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، اسپیکر رہ چکے ہیں، ڈپٹی وزیراعظم رہ چکے ہیں، اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ آج کوئی حقیقی اسٹبلشمنٹ ہے تو وہ حقیقی اسٹبلشمنٹ کدھر ہے، شاہراہ دستور پر ایک موجود ہے نا’۔
رہنما پاکستان پیپلز پارٹی ندیم افضل چن نے کہا کہ 2017 سے 2019 تک جنرل (ر) فیض ڈی جی سی رہے ہیں، ’اور الحمدُ اللہ، میں واحد بندہ ہوں گا جو بریگیڈئیر عادل سے اور جنرل فیض سے الیکشن کے دوران (پی ٹی آئی میں) شامل ہونے سے لے کر نہیں ملا‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’جنرل فیض اور بریگیڈئیر عادل جو 2018 کا سارا الیکشن مینیج کر رہے تھے‘۔
ندیم افضل چن نے بتایا کہ میں نے خان صاحب سے کہا کہ سیالکوٹ سے میں نے انکوائری کی ہے، چوہدری امیر حسین کو آپ ٹکٹ دیں، طاہر ہوندلی اور صوبائی اسمبلی کے میاں پرویز کو آپ ٹکٹ دیں اور فردوس عاشق کو آپ اسپیشل سیٹ پر لے جائیں تو آپ سارے سیالکوٹ کا الیکشن جیت جائیں گے، تو انہوں نے کہا کہ بلا لو امیر حسین کو، امیر حسین بنی گالہ کے گیٹ پر پہنچ گئے، بزرگ سیاستدان ہیں قابل اسپیکر ہیں، عون چوہدری اور میں اندر بیٹھے تھے، ’انہوں (عمران خان) نے کہا کہ یار یہ جنرل فیض نہیں مانتا، جنرل فیض کا میسیج آیا ہے کہ فردوس عاشق اعوان کو ٹکٹ ضرور دینا ہے، امیر حسین گیٹ پر کھڑا رہا، میں اور عون چوہدری، میں ایک گھنٹہ کوشش کرتا رہا کہ گیٹ سے اندر تو آجائیں لیکن گیٹ کے اندر، کیونکہ فیض کی اجازت نہیں تھی۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) فیض جس کو اپروو کرتے ٹکٹ اس کو دی جاتی۔ ’ہر ٹکٹ کی اپروول فیض دیتا تھا‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے خان صاحب نے خود کہا تھا کہ فردوس عاشق اعوان نے اتنے پیسے دئیے ہیں، میں نے کہا جی میں تو نہیں مانوں گا، ملہی ہے کوئی امریکہ میں اس سے ڈیڑھ سے ڈھائی کروڑ لیا ہے، فیصلہ آباد میں اپنے کوئی قریبی کا نام لیا ڈیڑھ کروڑ اس سے لے لئے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ والے ’آج پتا کریں نا ورلڈ بلیو سٹی والوں نے 25 کروڑ کس کو دیا‘۔
ندیم افضل چن نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پارلیمان کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کھڑی ہے۔
عطاء تارڑ نے ندیم افضل کی گفتگو سننے کے بعد کہا کہ میں ان کی بات سے متفق ہوں کہ ہماری پارٹی کو پنجاب میں توڑنے سے لے کر تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت قائم کرنے تک یہ جنرل فیض اور بریگیڈئیر عادل کرتے تھے۔ ہمارے امیدواروں کا کال کرکے کہا جاتا تھا ٹکٹیں جمع نہیں کرانیں، لوگ پانچ پانچ بجے تک ٹکٹیں اپنے پاس رکھتے تھے جمع نہیں کراتے تھے، ’کون تھا پیچھے بریگیڈئیر عادل تھا جنرل فیض تھا، یہ دو لوگ تھے‘۔
انہوں نے کہا کہ ادارے نے جب نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کرلیا تو یہ ایک گھنٹہ نہیں کھڑے رہ سکے منہ کے بل گرے ہیں جاکر۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شیخ وقاص اکرم کا پروگرام میں آئی ایس پی آر کی حالیہ تنبیہی پریس ریلیز کے حوالے سے کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کا جو بیان آیا ہے وہ ان کی رائے ہے اور وہ ان کا حق ہے، ہر ادارے کو اور ہر شخص کو اس بات کا حق ہے کہ اگر وہ سمجھے کہ اس پر الزام لگایا جارہا ہے تو وہ اس پر احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔